معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ساتھ اوپر فضا میں معلّق ہوا۔چوہے خبیث کا جو حشر ہواوہی اس مینڈک کا بھی حشر ہوایعنی دونوں کو ہلاک کرکے چیل نے اپنا لقمہ بنالیا۔اگر مینڈک پانی کے اندر رہتااور چوہے خبیث سے دوستی کا یہ رابطہ نہ قائم کرتاتوپانی کے اندر چیل کی دشمنی اس کا کچھ بال بیکانہ کرسکتی اور نہ ہی وہ اس چیل کا لقمۂ تر بنتا۔ اس واقعہ میں مولانانے بری صحبت سے بچنے کی کس اندازِ لطیف سے ہدایت کی ہے کہ پُرلطف قصہ بھی ہے اور ہدایت کی راہ بھی ہے۔ راقم الحروف عرض کرتاہے کہ روح اور نفس اور شیطان کو اسی قصّے پر منطبق کیاجاوے کہ نفسِ امارہ مثل خبیث چوہے کے ہے، بُری خصلت کے اعتبار سے اور روح مثلِ مینڈک ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قرب کا پانی ہی اس کا اصل مرکز ہے اور چیل کی مثال شیطان کی سی ہے۔ پس نفس اپنی خواہشات کے لیے روح کو ہرطرح پھسلاتاہے اور اس سے ڈور باندھنے کی کوشش کرتاہے، اب جس کی روح نفس کی خواہش پر تسلیم ِسرکرتی ہے اور اس سے رابطہ قائم کرلیتی ہے تو شیطان اس نفس کو جہاں جہاں چاہتاہے گھسیٹتاہے اور روح بھی اس کے ساتھ ذلیل پھرتی ہے بوجہ رابطہ بالنفس کے اور انجام کار شیطان جب دوزخ میں جاوے گا تو یہ نفس جو اس کے چنگل میں تھا وہ بھی جاوے گا اور روح جو نفس سے رابطہ گناہوں میں کیے ہوئے تھی وہ بھی دوزخ میں معذّب ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطافرمائیں کہ ہم اس واقعہ سے سبق حاصل کرلیں اور نفس اور شیطان سے اپنے کو محفوظ رکھیں جس کی صورت یہ ہوگی: الف )روح ذکر اللہ سے غافل نہ ہو کبھی قلب وجوارح دونوں کے ساتھ کبھی صرف قلب کے ساتھ، ان مواقع کی تفصیل بزرگانِ دین سے معلوم کرلیں۔ ب)نفس کتناہی گناہ کا لطف سامنے رکھے اُدھر رخ بھی نہ کرو، اس کو اپنا دشمن سمجھو اور دشمن بھی بڑا دشمن۔ ابلیس سے بھی بڑا دشمن نفس ہے۔ ج) شیطان کے وسوسوں پر لاحول ولاقوۃ الاباللہ پڑھتے رہواورکسی اللہ والے کی نظرِ عنایت کے سائے میں رہو یعنی ان کی صحبت سے ان کے علوم وارشاد سے