معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
مروت ہوگی کہ تو مجھے شاد کرے اور وقت بے وقت اپنی محبت سے یاد کرلیاکرے۔ بے نیازی از غمِ من اے امیر دہ زکوٰۃِ حسن و بنگر در فقیر تومیرے غم سے اے امیر! بے پرواہے، اپنے حسن کی زکوٰۃ دے یعنی اس محتاج پر نظرِ عنایت فرما اور شرفِ دیدار سے مجھے مسرور فرما۔ اب مولانا رحمۃ اللہ علیہ حق تعالیٰ کی طرف رجوع ہوگئے اور مولاناکا مقصود بھی ان قصوں سے یہی ہے۔ ایں فقیرِ بے ادب نادر خورست لیک لطفِ عامِ تو زاں برترست اے اللہ! یہ محتاج بے ادب اور نالائق ہے لیکن آپ کا لطفِ عام اس سے برتر وارفع ہے۔ می نجوید لطفِ عام تو سند آفتابے بر حدثہا می زند اے اللہ! آپ کا لطفِ عام سند اور قابلیت نہیں ڈھونڈتاہے اور آپ کا آفتابِ کرم نجاستوں پربھی اثر کرتاہے۔ شمس ہم معدہ زمیں را گرم کرد تا ز میں باقی حدثہا را بخورد یعنی آپ کے آفتاب نے زمین کا معدہ گرم کردیا جس کی حرارت نے نجاست کو اندرجذب کرلیا۔ جزوِ خاکی گشت و رست از وے نبات ھٰکَذَ ا یَمْحُو الْاِلٰہُ السَّیِّاٰت