معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
مراد مولانا کی اس حدیث کی طرف ہے کہ ملاقات ایک دن کے فصل سے محبت کو بڑھاتی ہے۔ پس مولانا نے یہاں فرمایاکہ مگر عشاق اس حکم سے مستثنیٰ ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: کُنْتُ اَلْزَمُ لِصُحْبَتِہٖ عَلَیْہِ السَّلَامُ؎ یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں تو ہروقت حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی صحبتِ مبارکہ سے لازم وملزوم کی طرح چپکارہتاتھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اس لزوم کو جائز رکھنا اور منع نہ فرمانا یہ مخصص بن گیا حدیث زُرْغِبًّا؎ کے لیے۔ پس اس حدیث سے وہ حکم عام مخصوص منہ البعض بن گیا اور یہ حکم ناغہ دے کر ملاقات کے لیے اس وقت ارشاد ہواتھا جب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اے ابوہریرہ! کل تم کہاں تھے، انھوں نے کہا: بعض اعزہ سے ملنے گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دن کے فصل سے ملاکرو پس دونوں حدیثوں میں تطبیق کی صورت یہ ہوئی کہ لزوم ودوامِ صحبت کا موقع جہاں تعلقِ شدید اور محبت قوی ہو اور غب یعنی ناغہ سے ملنے کا موقع جہاں تعلق غیر قوی اور محبت غیرشدید ہو۔ یک دمِ ہجراں بر عاشق چو سال وصلِ سالِ متصل پیشش خیال جدائی کاایک لحظہ بھی عاشق کے نزدیک مثل سال کے ہے اور متواتر ایک سال کا وصل اس کے سامنے ایک خیال ہے۔ دریاکاپانی کتناہی ہولناک ہولیکن مچھلیوں کے اشتیاق کے سامنے وہ ایک جُرعہ ہے یعنی پانی سے ان کو گھبراہٹ نہیں ہوتی۔ آگے مولانا فرماتے ہیں:اہلِ دنیا عشقِ مجازی کو بہت جلد سمجھ جاتے ہیں مگر ------------------------------