معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
کے درمیان اگر فضا آلود ہوجاوے توپھر ہدایت نہیں ہوگی اسی طرح اللہ والوں کے پاس جب حاضری ہوتو ان کی زیارت وصحبت اور تعلیم وارشاد کا انتظار کرو اور کان بن کرخاموشی سے ان کی بات سنو۔ مباحثہ اور مکالمہ کے طریقے سے غبار نہ اٹھاؤ کہ رد و قدح اور اعتراض واشکال ان کی باتوں پر شروع کردو۔ ایسی حرکت سے شیخ کا قلب مکدر ہوجاوے گا جس سے فیض بند ہوجاتاہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ شیخ کے سامنے بالکل بولوہی مت۔ کیوں کہ بالکل نہ بولنا بھی فیض بند کردیتاہے۔ ہر ضرورت کا علم شیخ کو نہیں ہوتا۔ پس اپنے حالاتِ ضروریہ باطنیہ کی اطلاع کرواور مشاورت کا سلسلہ کرو،مراد نہ بولنے سے قیل وقال اور اعتراض ہے بالکل نہ بولنے سے تو دل ہی نہ ملے گا اور انس آپس میں نہ پیدا ہونے سے دل ایک دوسرے سے دور ہوں گے جو مضر ہے ؎ زاں مئے کاں مے چونوشیدہ شود آبِ نطق از گنگ جوشیدہ شود اللہ تعالیٰ کی محبت کی شراب جب کسی مرشدِ کامل سے پی لی جاتی ہے تو اگرگونگا بھی ہوگاتو اس کی گویائی جوش میں آجاوے گی۔ مراد یہ ہے کہ اللہ والوں کی صحبت سے جب دل میں محبتِ حق پیدا ہوجاتی ہے تو کم پڑھے لوگ بھی ہدایت کے مضامین بیان کرنے لگتے ہیں جس کی نظیر میں حضرت حاجی امداداللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھ لیا جاوے کہ خود کافیہ تک پڑھے تھے اور بڑے بڑے علماء ومحدثین ومفسرین کے شیخِ طریقت تھے۔ از گہے کہ یافت زاں مے خوش لبی صد غزل آموخت داؤد نبی جس وقت سے شرابِ محبتِ حق سے حضرت داؤدعلیہ السلام کو خوش لبی حاصل ہوئی توصدہاغزل انھوں نے سیکھ لیں۔ یعنی رقت آمیز اور درد ناک کلام ان کے قلب میں از قبیلِ مناجات پیدا ہونے لگا۔