معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
یارچوں با یار خود بنشستہ شد صد ہزاراں لوحِ دل دانستہ شد جب یار اپنے یار کے پاس بیٹھتاہے تو لاکھوں لوحِ قلب معلوم ہوجاتے ہیں۔ لوحِ محفوظ است پیشانئ یار رازِ کونینش نماید آشکار لوحِ محفوظ ہے یار کی پیشانی جوکہ کونین کے اسرار آشکارا کردیتی ہے عاشق پر۔ ہادیٔ راہ ست یار اندر قدوم مصطفی زیں گفت اصحابی نجوم ہادیِٔ طریق ہے یار سلوک میں اسی سے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اصحابی رضی اللہ عنہم مثلِ نجوم کے ہیں ہدایت دینے میں۔ نجوم کی ہدایت دنیا کے راستے کی اور ان کی ہدایت آخرت کے راستے کی ہوتی ہے مولاناکی مراد اشعارِ مذکورہ سے یہ ہے کہ جس طرح عشاّقِ مجازی (متحابین للطبع) کی ملاقات مُظہرِِ اسرارِ محبتِ مجازیہ ہوتی ہے اسی طرح متحابین فی اللہ کی تلاقی(ملاقات) مُظہرِِ اسرارِ محبتِ حقیقیہ ہوتی ہے۔ پس جس محبت کا سبب حق تعالیٰ کی ذات ہے جیسا کہ طالب کو اپنے مرشد سے ہوتی ہے تو یہ تعلق بھی ہادی الی الحق ہوتاہے۔ چناں چہ جب مرید اپنے شیخ کے پاس بیٹھتاہے تو لاکھوں لوح ِقلب معلوم ہوتے ہیں یعنی مرشد کے قلب سے فیض وبرکات وعلوم و مَعارف اور واردات جو پہلے ظاہر نہ تھے منعکس اور منکشف ہونے لگتے ہیں اور شب وروز سالکین کو اس کا مشاہدہ ہے، پیشانئ یار کے لوحِ محفوظ ہونے سے مراد یہ ہے کہ طالب کو اپنے مرشدِ کامل کی پیشانی سے یعنی زیارت و ملاقات سے عجیب وغریب علوم اور فیوض محسوس ہوتے ہیں۔ دل کی بیماریوں کو بھی شفا محسوس ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے تعلق ومحبت ویقین میں بھی ترقی محسوس ہوتی ہے۔ آگے مولانا فرماتے ہیں کہ جس طرح ستاروں سے دنیا کے راستے کی ہدایت کے لیے شرط ہے کہ گرد وغبار نہ اڑائے تاکہ فضا صاف رہے اور تمہارے اور ستاروں