معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
نور جو تجلّئ طور کے بعد آپ کے چہرے پرتھا اس کے پار ہوجاتا۔ وہ نقاب مصاحبِ حرارتِ عشقِ الٰہی رہاتھا۔ سوز کے وقت وہ ایک عارف باللہ کا خرقہ رہ چکاتھا اس لیے وہ اس نور کا ساتر اور حجاب بن گیا۔ اب حضرت صفورا علیہا السلام جوآپ کی اہلیہ تھیں اور آپ کے حسنِ نبوت پر عاشق تھیں اس نقاب سے بے چین ہوگئیں اور جب صبر کے مقام پر عشق نے آگ رکھ دی تو آپ نے اسی شوق اور بے تابی سے پہلے ایک آنکھ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چہرے کے نور کو دیکھا اور اس سے ان کی وہ آنکھ غائب ہوگئی۔ اس کے بعد بھی ان کو صبر نہ آیااور دوسری آنکھ بھی کھول دی اور اس دوسری آنکھ سے جب نظارۂ تجلیاتِ طور کا پسِ منظر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چہرے پر دیکھنا چاہا تو وہ بھی بے نور ہوگئی۔ مولانا فرماتے ہیں:اسی طرح اللہ تعالیٰ کے راستے میں پہلے طالب روٹی دیتا ہے یعنی روٹی سے پیدا شدہ قوتوں کو مرضیاتِ الٰہیہ کے تابع کردیتاہے مگر جب اس پر نورِ طاعت اثر کرتاہے توجان بھی حوالہ کردیتاہے۔ اس مضمون کا شعر یہ ہے ؎ ہمچناں مردِ مجاہد ناں دہد چوں بروزد نورِ طاعت جاں دہد اس وقت حضرت صفورا علیہا السلام سے ایک عورت نے پوچھا کہ کیا تمھیں اپنی آنکھوں کے بے نور ہونے پر کچھ حسرت وغم ہے۔ گفت حسرت می خورم کہ صد ہزار دیدہ بودے تاہمی کردم نثار فرمایا کہ مجھے تویہ حسرت ہے کہ ایسی سوہزار آنکھیں اور بھی عطاہوجاتیں تو میں اُن سب کو اُس محبوب یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چہرہ تاباں کے دیکھنے میں قربان کردیتی۔ خزانہ اس بات کی نوبت کب آنے دے گا کہ میرا ویرانہ قصر ومحل کو یاد کرے یعنی جس ویرانے میں خزانہ دفن ہوتاہے تو وہ ویرانہ اس قدر مسرور اور مستغنی ہوتا ہے کہ کبھی محلّاتِ شاہی کو بھی یاد نہیں کرتا۔ اسی طرح حضرت صفورا علیہا السلام نے فرمایا کہ میری