معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ہوجاوے گا۔ کمالِ قدرتِ الٰہیہ سے مردانِ خدا کے ابدان نے نورِ بے کیف کا تحمل پایا۔ جس چیز کو کوہِ طور نہ برداشت کرسکا قدرتِ حق اس کی جگہ ایک آبگینہ کو(قلبِ عارف) بنادیتی ہے۔اسی مضمون کوحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے حدیثِ قدسی میں بیان فرمایا کہ حق تعالیٰ نے فرمایا: کہ نگنجیدم در افلاک و خلا در عقول و در نفوس با علا کہ میں نہیں سمایا ہوں افلاک اور خلا میں اور نہ عقول اور نفوس میں جو علوی ہیں۔ در دلِ مؤمن بگنجیدم چو ضیف بے ز چوں و بے چگونہ و بے کیف مگر مؤمن کے دل میں مہمان کی طرح سماجاتاہوں بلا چوں وبلا چگوں اور بلا کیف تشبیہ ضیف کے ساتھ اکرام ومحبوبیت میں ہے اور پورا دخل دینے میں ہے جیسا کہ مہمان محبوب پورا دخیل اورحاکم ہوتاہے اور سمانا ظرفیت اور مظروفیت کے طور پر نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ مکان سے منزہ وپاک ہیں، یہ بلا چوں بلا چگونہ بلاکیف ہے ؎ بے چنیں آئینہ ایں خوبی من برنتا بدنے زمین و نے زمن بدون ایسے آئینہ کے میرے جمال کو کوئی برداشت نہ کرسکتاتھا نہ زمین نہ آسمان۔ حاصلِ قصہ حضرتِ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے کمبل کا نقاب بنالیا اور بدون نقاب خلائق کو اپناچہرہ دیکھنے سے منع فرمادیا۔ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھاہے کہ جونپور میں حضرت قطب المدار صاحب رحمۃ اللہ علیہ کوئی بزرگ گزرے ہیں جن کو نسبتِ موسوی حاصل تھی اور ان کے چہرے کو بے نقاب کوئی دیکھ نہ سکتاتھا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ اس کمبل کے ٹکڑے نے وہ کام کیا جو آہنی دیواریں بھی نہ کرسکتی تھیں یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لباس کے علاوہ اگر کوئی نقاب لوہے کا بھی ہوتاتب بھی وہ