معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
گئی اور غلبۂ عشق میں دوکان کھڑے کھڑے لٹادی اور مولانا کے ہمراہ ہولیے ؎ اے سوختۂ جاں پھونک دیا کیا مرے دل میں ہے شعلہ زن اک آگ کا دریا مرے دل میں ہم طورِ عشق سے تو واقف نہیں ہیں لیکن سینہ میں جیسے کوئی دل کو ملا کرے ہے شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہ اک آگ سی ہے سینہ کے اندر لگی ہوئی نوسال تک صلاح الدین رحمۃ اللہ علیہ مولانا کی خدمت میں رہے، ان کی صحبت سے مولانا کو بہت سکون ملا۔ بالآخر ۶۶۴ھ میں صلاح الدین رحمۃ اللہ علیہ نے انتقال فرمایا، ان کے انتقال کے بعد مولانا نے اپنے مریدین میں سے مولانا حسام الدین چلپی رحمۃ اللہ علیہ کو اپنا ہمراز بنالیا اور پھر جب تک زندہ رہے ان کی صحبت سے محبوبِ حقیقی کا غمِ فراق ہلکا کرتے رہے، ان ہی مولانا حسام الدین رحمۃ اللہ علیہ کی ترغیب پر مولانا نے اپنی مشہور تصنیف مثنوی شریف لکھی۔ اس حقیقت کی طرف مولانا نے مثنوی میں خود اشارہ فرمایاہے ؎ ہمچناں مقصودِ من زیں مثنوی اے ضیاء الحق حسام الدیں توئی (رومی ؒ ) مولانا حسام الدین کو مخاطب کرکے حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قصۂ مذکورہ میں جس طرح اس پیا سے کا مقصود گہرے پانی میں بار باراخروٹ ڈالنے سے پانی کی آواز سننا اور اس کے بلبلوں کو دیکھنا تھا اسی طرح اس مثنوی سے اے حسام الدین! تم ہی میرے مقصود ہو ؎ مثنوی اندر اصول و ابتدا جملہ بہرِ تست و برتست انتہا (رومیؒ )