معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
نعرۂ مستانہ خوش می آیدم تا ابد جاناں چنیں می بایدم (رومی ؒ ) نعرۂ مستانہ مجھے اچھا معلوم ہوتاہے۔ قیامت تک اے محبوب! میں اسی طرح دیوانہ رہنا چاہتاہوں ؎ غیر آں زنجیر زلفِ دلبرم گردو صد زنجیر آری بر درم (رومیؒ ) زنجیرِ زلفِ دلبر یعنی احکامِ شریعتِ مطہرہ کے علاوہ اگر دوسو زنجیریں بھی میرے پاؤں میں ڈالوگے توسب کو توڑکررکھ دوں گا کہ اللہ کی زنجیر میں بندھے ہوئے دیوانے کو کوئی زنجیر گرفتار نہیں کرسکتی۔ حضرت مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ عشق کے بحرِ بے کراں تھے اور عاشق کوذکرِ محبوب کے علاوہ کچھ اچھا نہیں لگتا اس لیے کبھی عاشق پریہ کیفیت طاری ہوجاتی ہے کہ ہماری طرح کوئی اور بھی اللہ کا دیوانہ ملے جس سے محبوبِ حقیقی کی باتیں کرکے قلبِ مضطر کو تسلّی وسکون حاصل ہو ؎ خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو حضرت تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد مولاناکسی ایسے ہی دیوانے کی تلاش میں رہتے تھے۔ ایک دن اسی اضطراب میں صلاح الدین زرکوب کی دوکان کے پاس سے گزرے، وہ ورق کوٹ رہے تھے۔ ورق کوٹنے کا ہتھوڑا کچھ اس انداز سے آواز پیدا کرتاہے کہ اہلِ دل اس آواز سے اپنے قلب میں ایک کیفیتِ عشق محسوس کرتے ہیں پھر مولانا تو سراپا عشق اور سوختۂ جان تھے،یہ آواز سن کر بے ہوش ہوگئے۔ صلاح الدین زرکوب رحمۃ اللہ علیہ نے ہاتھ نہیں روکااور بہت سے ورق ضایع کردیے۔ بالآخرصلاح الدین رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں مولانا کے فیضِ باطن سے اسی وقت عشقِ الٰہی کی آگ لگ