معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ترجمہ : اور یہ مثنوی ابتدا سے تمہارے ہی لیے ہے اور تم ہی پر اس کی انتہا ہے۔ قصدم از الفاظِ او رازِ تو است قصدم از انشاش آوازِ تو است (رومیؒ ) میرا مقصود اس مثنوی سے آپ کا راز بیان کرنا ہے کیوں کہ اس کے الفاظ مصنّف کے کمال پر دال ہیں اور مصنف فی الحقیقت آپ ہی ہیں۔ میں توصرف ایک آڑہوں اور اس کی انشاء سے میرا مطلوب آپ کی آواز ہے۔ جس کو میں آپ کے القائے مضامین کے وقت اپنے گوشِ دل سے سنتاہوں۔ (ماخوذ از کلیدِ مثنوی دفترِ رابع) ایک بار مثنوی بیان کرتے کرتے مولانا اچانک خاموش ہوگئے اور فرمایاکہ اس وقت غیب سے مضامین کی آمد نہیں ہورہی ہے اس وجہ سے مضامین میں کیف نہیں لہٰذا خاموش ہوجانا ہی مناسب ہے۔ اسی موقع پر فرمایا ؎ سخت خاک آلود می آید سخن اے حسام الدیں درچہ بند کن (رومی ؒ ) میرے چاہِ باطن سے آبِ سخن سخت خاک آلود آرہاہے۔ لہٰذا اے حسام الدین!چاہِ باطنی کا دروازہ بندکیجیے یعنی زبان پر مہرِ سکوت لگادیجیے۔ اور زیادہ سخن گوئی کی فرمایش اس وقت نہ کیجیے ۔ مثنوی کے مضامین کا الہامی ہونا تومثنوی کے مطالعہ ہی سے معلوم ہوتاہے لیکن خود مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شعر میں اس کو واضح بھی فرمادیاہے ؎ قافیہ اندیشم و دلدارِ من گویدم مندیش جز دیدارِ من (رومیؒ )