معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
فارسی کا مصدر ہے جس کے معنیٰ چاٹنے کے ہیں یعنی پیر چاٹنا۔ پس یہ مغرب زدہ رفتارِ زمانہ کا پیر چاٹ رہے ہیں۔یاد رکھیے کہ پالیسی اور حق پرستی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتی۔ حق پرستی کی شان تو یہ ہوتی ہے کہ اس کو صرف ایک خدائے وحدہٗ لاشریک کی خوشنودی مطلوب ہوتی ہے اور اہلِ پالیسی کو تمام زمانے کی خوشامد کرنی پڑتی ہے تاکہ زمانہ اس سے راضی رہے ۔ اس لیے یہ ہمیشہ غمگین و متفکر رہتاہے اور مؤمنِ کامل زمانے سے بے پرواہو کرصرف خالقِ اکبرکی رضامندی کا متلاشی ہوتاہے۔ احقر کا ایک شعر اس حقیقت کے مطابق ملاحظہ ہو ؎ سینکڑوں غم ہیں زمانہ ساز کو اک ترا غم ہے ترے ناساز کو (اختر ) مولاناجلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ نے تمام انسانوں کو اپنے باطن میں تعلق مع اللہ کی لازوال دولت پیدا کرنے کی دعوت دی ہے۔ جس نعمت کو انھوں نے خود چکھا تھا اس کو چاہاکہ عام ہوجائے ؎ شَرِبْنَاوَ اَھْرَ قْنَا عَلَی الْاَرْضِ جُرْعَۃً فَلِلْاَرْضِ مِنْ کَاْسِ الْکِرَامِ نَصِیْبٗ مولانا نے فرمایا کہ اولیاء اللہ بہت سے اسرارِ مخفی رکھتے ہیں اور ان کو ظاہر نہیں کرتے کہ عقولِ متوسطہ عامہ اس کے فہم سے قاصر ہوتی ہیں لیکن پھر بھی گاہ گاہ غیر ارادی طور پر ان کی زبان سے کچھ اظہار ہوجاتاہے۔ جس طرح چھینک اور جمائی کے وقت بدون ارادہ منہ کھل ہی جاتاہے۔ پس بعض اسرار جن کو حق تعالیٰ ان کی زبان سے ظاہر کراناچاہتے ہیں تو ان پر کوئی قوی اور ناقابلِ تحمل حالت طاری فرماکرگاہ گاہ کچھ کہلواتے ہیں تاکہ اہلِ ذوق کوکچھ خوشبو اس عالم کی مل جاوے اور ان کا دل بھی اس دنیائے فانی سے ہٹ کرعالمِ غیب کے کروفرکی طرف مائل ہو ؎