معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ پر حال کی لذت جب منکشف ہوگئی تو ان پر محض قیل وقال کا ہیچ ہونا ظاہر ہوگیا۔ ایمانِ حالی اور تحقیقی کے سامنے ایمانِ استدلالی اور ایمانِ تقلیدی کی کوئی حقیقت نہیں۔ پائے استدلالیاں چوبیں بود پائے چو بیں سخت بے تمکیں بود مولانا فرماتے ہیں کہ دلائل اور استدلال کے پیر لکڑی کے ہوتے ہیں اور لکڑی کے پاؤں نہایت بودے اور کمزور ہوتے ہیں اس کے برعکس جو معرفت تقویٰ ، اعمالِ صالحہ اور عشقِ حقیقی کی برکت سے نصیب ہوتی ہے وہ نہایت پائیدار ہوتی ہے۔ قلب کی بصیرت سے جو ایمان عطا ہوتاہے وہ بصائر کے مشاہدات سے بھی مافوق ہوتا ہے۔ صحبتِ اہل اللہ اورکثرتِ ذکراللہ سے جو یقین نصیب ہوتاہے وہ اپنی مضبوطی میں جبلِ استقامت ہوتاہے۔ تمام دنیا اگر کفر وشرک سے آلودہ ہوجائے لیکن ایسے شخص کا ایمان ہرحال میں اپنی توحید کا علمبردار ہوتاہے۔ بقولِ حضرت سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ ؎ موحّد چہ بر پائے ریزی زرش چہ فولادِ ہندی نہی بر سرش امید و ہراسش نبا شد ز کس ہمیں است بنیادِ توحید بس مؤمنِ کامل کے قدموں پر چاہے سونے کا ڈھیر رکھ دو یا گردن پر ننگی تلوار رکھ دو لیکن نہ تو مال کی طمع اس کو توحید سے باز رکھے گی نہ تلوار کا خوف اس کے دل کو توحید سے منحرف کرسکتاہے۔ موحّد کو نہ کسی سے امید ہوتی ہے اور نہ کسی کا خوف ہوتاہے اور یہی توحید کی اصلی بنیاد ہے۔ لیکن آج کل مغرب زدہ مذاق نے زمانہ سازی کو اپنی زندگی کا معیار بنا رکھاہے اور اس کا نام پالیسی رکھاہے جس کا منشا یہ ہے کہ زمانے کے موافق بدلتے رہو خواہ ایمانی حیات موت کے گھاٹ ہی کیوں نہ اترجائے۔ یہ پالیسی کیا ہے؟ پا+لیسی ہے۔ لیسیدن