معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
اخلاقِ حمیدہ سے متّصف ہوگیا تو اب میں حق تعالیٰ کے نور سے سنتاہوں اور حق تعالیٰ کے نور سے دیکھتاہوں، حق تعالیٰ کا نور اپنے داہنے بائیں، اوپر نیچے دیکھتاہوں اور نورِ حق کو اپنے سر اور گردن میں مثلِ طوق کے پاتاہوں۔حضرت تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کے فیض سے مولانا کو عشقِ حقیقی کا جو مقام حاصل ہوا اور ان کی روح میں جو کیفیتِ عشقیہ پیدا ہوئی اس کا کچھ اندازہ مولانا کے اس کلام سے ہوتاہے ؎ بادہ در جوشش گدائے جوشِ ما ست چرخ در گردش اسیرِ ہوشِ ما ست بادہ اپنے جوش میں ہمارے جوش کی گدا ہے اور آسمان اپنی گردش میں ہمارے ہوش کا قیدی ہے۔ بادہ از ما مست نے کہ ما ازو قالب از ما ہست نے کہ ما ازو (رومیؒ ) شراب ہم سے مست ہوئی ہے نہ کہ ہم شراب سے مست ہوئے ہیں،یہ جسم ہماری روح کے فیض سے موجود ہے نہ کہ ہم اپنے وجود میں جسم کے محتاج ہیں۔ جب روح میں حق تعالیٰ سے نسبتِ خاصہ پیدا ہوجاتی ہے تو صفاتِ روح صفاتِ نفس پر غالب ہوجاتے ہیں اور روح چوں کہ عالمِ امر سے متعلق ہے اور عالمِ ناسوت یعنی دنیا عالمِ آخرت کے مقابلے میں مثلِ قید خانہ ہے۔ پس عشقِ حقیقی کے آثار جب عارف کی روح اپنے اندر محسوس کرتی ہے تو اس کو اس عالم کی فانی مستی اپنی حقیقی اور ابدی مستی کے سامنے محتاج وگدامعلوم ہوتی ہے اور روحِ عارف کو اپنی وسعت ِ پرواز کے سامنے آسمان کی گردش بھی ہیچ معلوم ہوتی ہے ؎ عجب کیا گر مجھے عالم بایں وسعت بھی زنداں تھا میں وحشی بھی تو وہ ہوں لامکاں جس کا بیاباں تھا (مجذوبؔؒ )