معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
انکشاف ذوقًا اور حالاً محسوس ہونے لگا اور عشقِ حقیقی کے فیض سے مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کے سینے میں علم ومعرفت کا سمندر موجیں مارنے لگا۔ اور علم کا یہ سمندرایسا وسیع ہے کہ آج تک اولیائے امت اس سے فیض یاب ہورہے ہیں اور مثنوی آج بھی دلوں میں عشقِ حق کی آگ لگارہی ہے۔ مولانا کے علوم ومَعارفِ کاپتا مثنوی معنوی کے مطالعہ سے چلتاہے۔ اس وقت مولانا کا ایک علمِ لطیف مثالًاتحریرکرتاہوں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مولاناکے عشق کا مقام کتنا بلند ترین ہے۔ بر برونِ کُہہ چو زد نورِ صمد پارہ شد تا در درونش ہم زند کوہِ طور کی سطحِ ظاہری پر جب نورِ صمد نے تجلّی فرمائی تو طور پارہ پارہ ہوگیا تاکہ نورصرف ظاہر پر نہ رہے باطن میں بھی داخل ہوجائے ؎ گرسنہ چوں بر کفش زد قرصِ ناں واشگافد از ہوس چشم و دہاں (رومیؒ ) بھوکے کے ہاتھ پر جب روٹی کا ٹکڑا رکھ دیاجاتاہے تو ہوس سے وہ منہ اور آنکھیں پھاڑدیتاہے۔ یہی حالت طور کی ہوگئی گویا اس نے منہ پھاڑدیاکہ غذائے نورجس طرح اس کے ہاتھ یعنی ظاہرپر رکھی گئی اسی طرح اس کے باطن میں پہنچادی جائے ؎ آجا میری آنکھوں میں سماجا مرے دل میں کوہِ طور کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی جو کیفیتِ عشقیہ مولانا نے یہاں ارشاد فرمائی ہے اس سے مولانا کی نسبتِ عشقیہ کا ظہور ہوتاہے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت مع اللہ کو حضرت شمس الدین تبریزیرحمۃ اللہ علیہ کی آتشِ عشق کی بدولت کتنا عروج نصیب ہوا، اندازہ مولانا ہی کے کلام سے ملاحظہ ہو۔ فرماتے ہیں: