معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
عشقِ تبریزی رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کو اس طرح دیوانہ کردیاکہ نہ پالکی رہی نہ جبہ ودستار نہ تلامذہ کا ہجوم۔ شانِ علم پر شانِ فقر غالب ہوگئی اور علم کی صحیح حقیقت سے آگاہ ہوگئے۔ فرماتے ہیں: علم نبود الاّ علمِ عاشقی مابقی تلبیسِ ابلیسِ شقی (رومیؒ ) حقیقی علم درحقیقت حق تعالیٰ کی محبت کا نام ہے اور اس کے بجائے اگر علومِ ظاہری کے اصل مقصود یعنی حصولِ محبتِ حق سے روگردانی کی تو ایسا علم ابلیسِ لعین کی تلبیس کا ذریعہ ہوتاہے ؎ علمے کہ رہ بحق ننماید جہالت است ترجمہ : جوعلم کہ حق تعالیٰ تک رسائی کا ذریعہ نہ بنے وہ جہالت ہے۔ علم کا پندار اہلِ علم کو رکھتا ہے محروم حق سے دوستو علم کا حاصل ہے بس عشقِ خدا آہ سب دھوکا ہے بس اس کے سوا (اختر ) مگرعلم کا پنداربدونِ صحبتِ پیرِ کامل کے نہیں نکلتا۔ جب دستارِ فضیلت کو دستارِ محبت میں گم کردیاجاتاہے تب کام بنتاہے ۔ مولانا فرماتے ہیں: قال را بگذار مردِ حال شو پیشِ مردِ کاملے پامال شو (رومیؒ )