معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
اے محبوب! آپ کی مہربانی جو حیات میں مجھ پر ہواکرتی تھی مجھ کوجب یاد آتی ہے تومیری جان آپ کی خوشبو کو اس جہان میں دیوانہ وار ڈھونڈتی ہے۔ مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ پر ان کے پیرحضرت شمس تبریزی رحمۃاللہ علیہ کے فیضِ صحبت نے کیا اثر کیا تھا اس کا پتا مثنوی سے چلتاہے۔ مثنوی معنوی میں مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کی زبانِ مبارک سے جو ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار نکلے ہیں وہ آگ در اصل حضرت تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کی تھی جو زبان کی محتاج تھی اور مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کو حق تعالیٰ نے شمس الدین تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کی زبان بنادیا ؎ اے سوختۂ جاں پھونک دیا کیا مرے دل میں ہے شعلہ زن اِک آگ کا دریا مرے دل میں (خواجہ صاحب ؒ ) مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ بادشاہ کے نواسے اور اپنے وقت کے زبردست محدّث ومفسّر تھے جس وقت پالکی پر چلتے تومولانا کی محبت میں سینکڑوں شاگردپاپیادہ پیچھے پیچھے چلتے تھے ، اب وہی مولانارومی رحمۃ اللہ علیہ ہیں کہ اللہ کی محبت میں اپنے پیر کا سب سامان گدڑی، چکّی، پیالہ،غلّہ اور بستر سر پر رکھے ہوئے گلی در گلی پھر رہے ہیں ؎ ایں چنیں شیخ گدائے کو بکو عشق آمد لا ابالی فاتقوا (رومیؒ ) اتنا بڑا شیخ آج گدا بن کردر بدر پھر رہاہے۔ عشق جب آتاہے اسی شان سے آتاہے۔ پس اے جھوٹے عشق کا دعویٰ کرنے والو! ذرا ہوشیار ہوجاؤ۔ پیرِ کامل کی صحبت نے مولاناکو کیا بنادیا۔ خود فرماتے ہیں: مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم تا غلامِ شمس تبریزی نہ شد