معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت سے مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کی حالت میں تغیر پیدا ہوگیا اور جب عشقِ حقیقی نے اپناپورا اثر کردیاتو مولانا پرمستی و وارفتگی غالب رہنے لگی۔ درس وتدریس وعظ و پند کے اشغال چھوٹ گئے۔ حضرت شمس الدین تبریزی کی صحبت سے ایک لمحے کو جدا نہ ہوتے تھے۔ تمام شہر میں ایک شورش مچ گئی۔ مولانا فرماتے ہیں: نعرۂ مستانہ خوش می آیدم تا ابد جاناں چنیں می بایدم (رومیؒ ) اے محبوبِ حقیقی! آپ کی محبت میں مجھ کو نعرۂ مستانہ بہت اچھا معلوم ہوتاہے۔ قیامت تک اے محبوب! میں اسی دیوانگی و وارفتگی کو محبوب رکھتاہوں۔ ہرچہ غیر شورش و دیوانگی است در رہِ او دوری و بے گانگی است (رومیؒ ) اللہ تعالیٰ کی محبت وشورش کے علاوہ دنیا کے تمام افسانے دوری اور بے گانگی کے مصداق ہیں۔ مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کی حالت بمصداق اس شعر کے ہوگئی ؎ دلِ مضطرب کا یہ پیغام ہے ترے بن سکوں ہے نہ آرام ہے تڑپنے سے ہم کو فقط کام ہے یہی بس محبت کا انعام ہے (مولانامحمداحمدؒ ) جب مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ پر عشقِ الٰہی کا یہ اثر ظاہر ہوا تو شہر میں یہ فتنہ اٹھاکہ شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ نے ان پر جادو کردیا ہے۔ فتنے کے ڈر سے حضرت تبریزی رحمۃ اللہ علیہ