معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اگرحق تعالیٰ کے ساتھ قلب میں صحیح رابطہ نصیب ہوجاوے تو بدون کتاب اور استاد کے علومِ نبوت کا فیضان قلب میں موجزن دیکھوگے ؎ خم کہ از د ریا درو راہے بود پیشِ اُو جیحونہا زانو زند (رومیؒ ) وہ مٹکا جس کو سمندر سے رابطہ نصیب ہوجاوے اس کے سامنے جیحون جیسے بہت سے دریا زانوئے ادب طے کریں گے کیوں کہ دریائے جیحون تو خشک ہوسکتا ہے لیکن یہ چھوٹا سا مٹکاجس کا رابطہ سمندر سے قائم ہوگیاہے باوجود اپنی افاضیت وافادیتِ مستمرّہ کے کبھی خشک نہ ہوگا۔ اسی طرح وہ عارف باللہ جس کے قلب کو حق تعالیٰ سے صحیح تعلق نصیب ہوگیا اس کے سامنے بڑے بڑے علمائے ظاہر زانوئے ادب طے کرتے ہیں۔ اسی مضمون کو ایک بزرگ مولانا محمد احمدرحمۃ اللہ علیہ یوں بیان فرماتے ہیں ؎ کسی نے اپنے بے پایاں کرم سے مجھے خود کردیا روح المعانی جو آسکتا نہیں وہم و گمان میں اسے کیا پا سکیں لفظ و معانی حق تعالیٰ شانہٗ اگر بندوں کی ہدایت کا سامان نہ فرمائیں تو کسی کو ہدایت نہ ہو۔ قلب میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور تڑپ اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب حق تعالیٰ اپنی طرف جذب فرماتے ہیں لہٰذا کسی کو اپنی کسی حالت پر ناز نہ ہونا چاہیے کہ یہ درد ومحبت اور سوز وگداز ان ہی کے جذب کا صدقہ ہے ؎ مری بے تابیٔ دل میں ان ہی کا جذب پنہاں ہے مرا نالہ ان ہی کے لطف کا ممنونِ احساں ہے (اختر )