معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
پڑے اور سمجھ گئے کہ اہلیہ کی سخت باتیں سن کر یہ مغموم ومترددہے۔ ارشاد فرمایا: گر نہ صبرم می کشیدے بارِ زن کے کشیدے شیرِِِنر بیگارِ من (رومیؒ ) اگر میرا صبراس تندخو عورت کی تلخیاں برداشت نہ کرتاتو یہ شیرِ نر میرا بیگار کیوں اٹھاتا ۔ بارِ آں ابلہ کشیم و صد چو او نے زِ عشقِ رنگ و نے سودائے او ( رومیؒ ) اس بے وقوف عورت کی اور سینکڑوں گراں باریاں مثل اس کے برداشت کرتاہوں اور یہ مجاہدہ ومشقت صرف خوشنودیِٔ حق تعالیٰ کے لیے ہے نہ کہ اس بد مزاج عورت کے حسن اور رنگ کے عشق میں۔ چوں کہ باشم در خلائق اے جواں عجب در من آید از تعظم شاں چوں کہ میں خلق میں محبوب ومقبول ہوں اور مخلوق کی تعظیم سے میرے اندر عُجب وخود بینی پیدا ہوجاتی ہے۔ پس علاجِ عُجب ایں زن می کند عُجب و کبر از نفس بیروں می کند ( رومیؒ ) پس میرے تکبر اور پندار وخود بینی کا علاج یہ عورت کیا کرتی ہے ۔ یعنی جب یہ میرے ساتھ گستاخی اور بدتمیزی سے پیش آتی ہے تو دماغ سے تمام پندار وتکبر نکل جاتاہے جو خلق کی تعریف وتعظیم سے پیدا ہوتاہے اور اس طرح نفس کا عُجب وتکبر سے تزکیہ ہوجاتاہے۔