معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
سے عجیب کیف ظاہرہوتا۔ محبت کی باتوں کا لطف تو صاحبِ محبت اور صاحبِ درد ہی محسوس کرسکتاہے ؎ لذتِ درد کو بے درد بھلا کیا جانے بہر حال وہ درویش صعوبت ومشقت اٹھاتے ہوئے کسی طرح خارقان پہنچے اور پوچھتے پوچھتے حضرت شاہ ابوالحسن خرقانی رحمۃاللہ علیہ کے مکان پر حاضر ہوکر دستک دی۔ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ گھر پر موجود نہ تھے۔ایندھن کے لیے لکڑی لینے جنگل تشریف لے گئے تھے۔اندر سے شاہ صاحب کی اہلیہ نے پوچھا: کون ہے؟عرض کیا کہ مسافرہوں اور دور دراز کا سفرطے کرکے حضرت شاہ صاحب کی زیارت کو حاضرہواہوں۔ اہلیہ نہایت بدمزاج اور تندخو تھیں۔ حضرت شاہ صاحب سے اکثر لڑاکرتی تھیں۔ مسافر کے اس اظہارِ عقیدت پر بہت غضب ناک ہوئیں اور کہا: اے شخص! کیا تجھ کو دنیا میں کوئی اور کام نہ تھاکہ اس قدر طویل سفرکی تکلیفیں فضول برداشت کیں اورحضرت شاہ صاحب خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کو بہت سخت وسست اور برا بھلا کہا جس کو نقل کرنا بھی گستاخی ہوگی۔ اس طالبِ صادق نے حضرت شیخ کی اہلیہ کی زبان سے جب یہ بدتمیزی کی باتیں سنیں تو تاب نہ لاسکا اور کہاکہ اگر حضرت شیخ سے تم کو نسبت تزوج کی نہ ہوتی تو ابھی تمہارے جسم کو پارہ پارہ کردیتا۔ لیکن اتنے بڑے سلطان العارفین کی اہلیہ ہواس لیے میں کوئی گستاخی نہیں کرسکتا۔ یہ کہہ کر پھر محلہ کے لوگوں سے دریافت کیا کہ حضرت کہاں تشریف لے گئے ہیں۔ کسی نے بتایا کہ وہ قطبِ وقت جنگل سے لکڑیاں لینے گئے ہیں۔ شیخ کی محبت میں وہ مریدجنگل کی طرف چل دیااور راستے میں سوچتا جارہاتھا کہ اتنا بڑا شیخ ایسی بدخوعورت کو نہ جانے کیوں شرفِ تعلق بخشاہے۔ اسی شش وپنج میں مبتلا تھا کہ دیکھتاہے کہ سامنے سے ایک شخص شیر کی پشت پرسوار چلاآرہاہے اور لکڑیوں کا گٹھڑ بھی شیر کی پشت پر رکھا ہوا ہے۔ یہی قطبِ وقت سلطانِ معرفت حضرت شاہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ جب حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس مرید کو دیکھا تو آپ ہنس