معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
قصہ یہ چل رہاتھا کہ وہ مجذوب جو ایک دیہات کے رہنے والے تھے۔ ان پر شدید قبض طاری ہوا۔ حق تعالیٰ شانہٗ کی طرف سے جو قرب وحضور میسّر تھامشیّتِ الٰہی نے جب اس آفتابِ قرب پر ابر مسلّط فرمادیا تو غمِ فراق سے بے چین جنگل جنگل نالۂ ہجرکرتے ہوئے اور روتے ہوئے اپنی دیہاتی زبان میں اس بے کیفی اور تلخ ایامی کو اس عنوان سے اپنے مولیٰ کو سناتے۔ وہ جملہ ان مجذوب بزرگ کا نہایت درد ناک اور عشق ناک ہے۔ فرمایاکرتے ؎ دلیا بنا بھتوا اداس موری سجنی دلیا سے مراد دال ہے۔ بھتوا بھات، پکے ہوئے چاول کو کہتے ہیں۔ اداس معنیٰ افسردہ۔ موری معنیٰ میری۔ سجنی یعنی محبوب۔ سلیس ترجمہ یہ ہواکہ اے میرے محبوبِ! جس طرح دال کے بغیر چاول پھیکا پھیکا اور بے کیف معلوم ہوتاہے اور لقمہ حلق سے نیچے نہیں اترتااسی طرح میری زندگی کے ایام آپ کی جدائی سے اداس وافسردہ وبے کیف ہوگئے اور یہ دن کاٹے نہیں کٹتے ۔ (۱) از غمِ ما روزہا بیگاہ شد روزہا با سوزہا ہمراہ شد (رومیؒ ) غم سے اپنے ایامِ زندگی بھی مجھ کو اجنبی محسوس ہورہے ہیں اور میرے شب وروز سوزِ فراق سے مل گئے ہیں۔ از فراقت تلخ شد ایامِ ما دور شد از جانِ ما آرامِ ما (اخترؔ) اے محبوب! آپ کی جدائی سے میرے ایامِ زندگی تلخ ہوگئے ہیں اور میری روح سے میرا آرام وسکون چھن گیاہے۔ حضرت مرشدی قدّس سرّہٗ اس واقعہ کو ارشاد فرماکر آبدیدہ ہوجاتے اور ان آنسوؤں