معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
وہ جانِ حسن جو تھا حکمراں کل بادشاہوں پر ہے پیری سے بغاوت آج اس کی حکمرانی میں محبت بندۂ بے دام تھی جس روئے تاباں کی زوالِ حسن سے نادم ہے اپنی جانفشانی میں وہ نازِ حسن جو تھا زینتِ شعر و سخن کل تک وہ اب پیری سے ہے محصور کیوں ریشہ دوانی میں کہاں کا پردۂ محمل کہاں کی آہِ مہجوری وہ بت پیری سے رسوا ہے غبارِ شتربانی میں شبابِ حسن کی رعنائیاں صبحِ گلستاں ہے مگر انجامِ گلشن دیکھ شامِ باغبانی میں وہ جانِ نغمۂ عشاق اور جانِ غزل گوئی ہے پیری سے گل افسردہ بہارِ شعر خوانی میں ہزاروں حسن کے پیکر لحد میں دفن ہوتے ہیں مگر عشاقِ ناداں مبتلا ہیں خوش گمانی میں اگر ہے عشق تو بس عشقِ حیّ لایزل باقی محبت عارضی ہوتی ہے عشقِ حسنِ فانی میں نہ کھا دھوکا کسی رنگینیٔ عالم سے اے اخترؔ محبت خالقِ عالم سے رکھ اس دارِ فانی میں فائدہ : حاصلِ قصہ یہ ہے کہ وہ طالبِ حق عشقِ مجازی کے فتنے سے موت تک نجات نہ پاتالیکن ایک مقبول بندے کی صحبت کے فیض سے اسے اس پلیدی سے نجات مل گئی۔