معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
چودھویں کے چاند کو آسماں پر کیسا خوشنما دیکھتے ہو لیکن اس کی حسرت کو دیکھو جب وہ گھٹنے لگتاہے ؎ اے بدیدہ لونہائے چرب خیز فضلۂ آں را ببیں در آب ریز (رومیؒ ) اے شخص! تو عمدہ غذاؤں کی تازگی اور حسن پر فریفتہ ہے لیکن بیت الخلاء میں اس کے فضلے کو جاکر دیکھ! کہ کیا نتیجہ ہے؟ زادۂ دنیا چو دنیا بے وفا است گرچہ رو آرد بتوآں رو قفا است (رومیؒ ) اہلِ دنیامثلِ دنیا کے بے وفا ہیں۔اگر یہ تمہاری طرف چہرہ کریں تو سمجھ لو یہ چہرہ نہیں سر کا پچھلا حصّہ ہے ؎ عشقِ پاکاں درمیانِ جاں نشاں دل مدہ اِلّا بمہرِ دل خوشاں (رومیؒ ) جب دنیا اور اہلِ دنیا کی بے وفائی معلوم ہوگئی تو پاک بندوں یعنی اللہ والوں کی محبت دل میں قائم کرواور دل کسی سے مت لگاؤلیکن صرف اللہ تعالیٰ کے مقبول اور خاص بندوں سے۔ علامت مقبول عنداللہ ہونے کی یہ ہے کہ ان بندوں کے پاس بیٹھ کر دل دنیا سے بے رغبت ہونے لگے اور حق تعالیٰ کی طرف مائل ہونے لگے اور ظاہری طورپر یہ شخص متبعِ سنت ہو اور کسی بزرگ متبعِ سنت کا صحبت یافتہ واجازت یافتہ ہو۔ ان خوبیوں کے بعد پھر ہرگزاس میں کشف وکرامت مت تلاش کروکہ کشف و کرامت امرِ غیر اختیاری ہے اور امورِ غیرا ختیاریہ کو قبولیت اور عدمِ قبولیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ قرب یا عدمِ قرب کا مدار اللہ نے امورِ غیر اختیاریہ پر نہیں رکھا ورنہ نعوذ باللہ! اعتراض