معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
حسن جب مقتل کی جانب تیغِ برّاں لے چلا عشق اپنے مجرموں کو پا بجولاں لے چلا حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ جب قید خانے کی طرف خوش خوش جانے لگے توآپ کے دوست بھی بطورِ ہمدردی ساتھ چل دیے۔ جب آپ کو قیدخانے میں داخل کرکے دروازہ بند کردیاگیا تو دوستوں نے غور وفکر شروع کیاکہ آخر کیاماجراہے کہ اتنا بڑا شیخِ باطن قید خانے میں محصور کردیاگیا۔ معلوم ہوتاہے کہ اپنے مہتابِ باطن کو ابرِ جنوں سے چھپانا چاہتے ہیں اور عوام کے شر سے بچنے کے لیے یہ صورت اختیار کی ہے یا عاقلوں کی صحبت سے متوحّش ہوکر خود کو دیوانہ بنالیاہے۔ آخر کار ان سب نے زنداں کی سلاخوں کے قریب آکر عرض کیا کہ حضور! ہم سب آپ کے مخلص دوست ہیں اور آپ کی مزاج پرسی کے لیے حاضر ہوئے ہیں اور حیران ہیں کہ کس نے آپ پر جنون کا الزام لگادیا۔ آپ تو دریائے عقل ہیں۔ یہ اہلِ ظاہر آپ کے مقامِ قرب اور رفعتِ باطن سے ناواقف ہیں اور آپ کو مجنون و دیوانہ سمجھتے ہیں حالاں کہ آپ عاشقِ حق ہیں۔ ہم لوگ آپ کے سچے محبّ اور دوست ہیں اور دونوں عالم میں بہت آپ کو عزیزرکھتے ہیں۔ براہِ کرم ہم پر اس راز کاانکشاف فرمادیجیے کہ آپ اس قید خانے میں اپنی جان کو کیوں ضایع فرمارہے ہیں۔ راز کو اپنے دوستوں سے نہیں چھپایا کرتے۔ حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی گفتگو میں بوئے اخلاص محسوس نہ کی۔ پس امتحانِ اخلاص کے لیے ان کی طرف پتھر اٹھاکر دوڑے جیسے کہ پاگل وحشت میں لوگوں کو مارنے کے لیے دوڑتاہے،یہ معاملہ دیکھتے ہی وہ لوگ چوٹ کے ڈر سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ ان کا یہ گریز دیکھ کرشیخ نے ان کے اعتقاد ومحبت پرقہقہہ لگایااور فرمایاکہ اس درویش کے دوستوں کو تو دیکھو۔ ارے نادانو! تم محبت و دوستی کو کیا جانو۔ کے کراں گیرد ز رنجِ دوست دوست رنجِ مغز و دوستی او را چو پوست (رومیؔؒ )