معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
حضرت مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایسی شورش ودیوانگی طاری تھی کہ آپ کی آہوں سے لوگوں کے کلیجے منہ کو آجاتے تھے۔ محبت میں بجز نالہ وفریاد کے کچھ اچھا نہیں معلوم ہوتا ؎ نعرۂ مستانہ خوش می آیدم تا ابد جاناں چنیں می بایدم گریہ وزاری اور تضرُّع سے حق تعالیٰ کا راستہ بہت جلد طے ہوتاہے، اس قدر قرب ہوتاہے کہ سالہا سال کے مجاہدے سے وہ بات نصیب نہیں ہوتی ؎ جز خضوع و بندگی و اضطرار اندریں حضرت ندارد اعتبار چوں خدا خواہد کہ ما یاری کند میلِ مارا جانبِ زاری کند نالم اورا نالہا خوش آیدش از دو عالم نالہ و غم بایدش اے جلیلؔ اشکِ گنہ گار کے ایک قطرہ کو ہے فضلیت تری تسبیح کے سو دانوں پر محبت کا سب سے بڑا انعام یہی تڑپ ہے ؎ تڑپنے سے ہم کو فقط کام ہے یہی بس محبت کا انعام ہے (حضرت مولانا محمداحمد پرتاب گڑھیؒ) جب حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ کا جوشِ عشق حد سے گزرگیا اور آپ کی آہ وزاری سے مخلوق عاجز ہوگئی تو رندوں کی ایک جماعت نے آپ کو قید خانے میں بند کردیا ؎