معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ابدالوں کے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے پروں کی طرح نظر نہ آنے والے پَر ہوتے ہیں جن سے سدرۃ المنتہیٰ تک ایک جست میں میلوں کا سفر طے کرتے ہوئے پہنچتے ہیں۔ عارف کا قلب حق تعالیٰ کی معیتِ خاصہ کے ادراک کی برکت سے وہ کیف محسوس کرتاہے کہ جس کی شوکت کے سامنے شراب اپنی مستی میں اس کیف کی بھکاری معلوم ہوتی ہے اورعارف کی فضائے قلب میں وسعت کا وہ عالم ہوتاہے کہ چرخ اپنی گردش میں اس کے ہوش کا قیدی ہوتاہے ، اس ادراک واحساس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ عارف کی روح کو فیضانِ حق کے سبب عالمِ ناسوت یعنی دنیا سے برائے نام تعلق ہوتاہے اور غلبہ عالمِ آخرت کے تعلق کا رہتاہے۔ اسی مقام کے متعلق حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بادہ در جوشش گدائے جوشِ ماست چرخ در گردش اسیرِ ہوشِ ماست میرے شیخ حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو اپنا حال تحریر فرمایا تھا کہ حضرت! مجھے ایسا محسوس ہوتاہے کہ میں دنیا کی زمین پر نہیں آخرت کی زمین پر چلتاپھرتاہوں۔ دنیا کے مشاغل آخرت کے استحضار سے مانع نہیں ہوتے۔ حق تعالیٰ کے ساتھ قوی رابطہ قلب میں جب راسخ ہوجاتاہے تو یہی کیفیت ہوجاتی ہے اور بعض وقت عارفین پر خاص نفحاتِ کرم بھی غیب سے آتے رہتے ہیں، ان خاص لمحات کی کیفیت اور لطف کو الفاظ بیان نہیں کرسکتے۔ بس جس روح پر ان نفحات کا نزول ہوتاہے وہی جانتی ہے اور لطف اندوز ہوتی ہے ؎ جب کبھی وہ ادھر سے گزرے ہیں کتنے عالم نظر سے گزرے ہیں (عارفیؒ ) حق تعالیٰ کی محبت میں حضرت ذوالنّون مصری رحمۃ اللہ علیہ پر عجیب حالت طاری ہوگئی۔