معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
فائدہ : اس حکایت میں نصیحت ہے کہ اَلْاَمْرُ فَوْقَ الْاَدَبِیعنی حکمِ حاکم کے بعداصل ادب یہی ہے کہ اس حکم پر عمل کیاجاوے۔ ایاز کو محمود سے ذاتی محبت تھی اور وزراء وامراء کو اپنی کرسیوں ، عہدوں اور تنخواہوں سے محبت تھی۔ یہ فہم وعقل جو ایاز کے اندرتھی وہ محبت کا ذاتی فیضان تھا، محبت خود ادب سکھادیتی ہے۔ یہ خوش فہمی ومعرفت عقلِ محض سے نہیں آتی محبت ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ شیطان عاقل تو تھا عاشق نہ تھااس لیے احکم الحاکمین کے حکم پر اعتراض کربیٹھا۔ حالاں کہ امرِ الٰہی کی عظمت کا تقاضافوری تعمیلِ حکم کا تھا۔ نتیجہ یہ ہواکہ مردودِ بارگاہ ہوا اور حضرت آدم علیہ السلام عاشق تھے۔ محبت نے اپنے قصور کااعتراف کرنے میں عار محسوس نہ کی بلکہ اعترافِ قصور کے ساتھ محبوبِ حقیقی کو راضی کرنے کی فکر میں آنکھوں نے آنسوؤں کے دریا بہادیے۔ حکایتِ مذکورہ میں امرِالٰہی کی عظمت اور بے چوں وچرا تعمیل کا عبرت انگیزدرس موجودہے۔ محمودو ایاز میں جو تعلق تھاوہ آقا اورغلام کا تھااور حق تعالیٰ کے ساتھ ہمارا تعلق اس سے بے پناہ زیادہ گہراہے۔ ہمارے جسم کا ہرذرہ حق تعالی کا پیدا کردہ اور پروردہ ومملوک ہے اور ایسی ملکیت ہے کہ اس میں کوئی شریک نہیں۔ مسئلۂجہا د کے اندراسی ادب کی تعلیم ہے کہ کافر بھی خدا کی مخلوق ہے اور حق تعالیٰ کے انعاماتِ پرورش اس پربھی اسی طرح عام ہیں جس طرح مؤمنین پر ہیں۔ اے کریمے کہ از خزانۂ غیب گبر و ترسا وظیفہ خور داری اےاللہ! آپ ایسے کریم ہیں کہ کافروں کو بھی خزانۂ غیب سے روزی عطافرماتے ہیں۔ لیکن جب جہاد کا حکم ہوتاہے اس وقت یہ سوچنا سخت بے ادبی ہے کہ اتنے انسانوں کا خون جن کی پرورش میں فلکیات، ارضیات،آفتاب، مہتاب، ستارے، بادل، شرقی، غربی،شمالی، جنوبی ہوائیں، سمندر، پہاڑ، لاکھوں مشینیں، لاکھوں کاریگر اور مزدور لاکھوں جانوروں کی خدمات مصروف کار تھیں، جن کی پرورش وبقائے حیات کے لیے اس درجہ اہتمام کہ ساری کائنات کو مصروفِ خدمت بنادیاگیا ان ہی انسانوں کو بوقتِ