معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
جہادمنٹوں اورسیکنڈوں میں تہہ تیغ کردینے کا حکم ہورہاہے۔ اب یہاں چوں و چرا کی گنجایش نہیں۔ اس وقت امرِ الٰہی کی عظمت کے سامنے پوری کائنات کی کچھ قیمت نہیں ؎ امرِ شہ بہتر بہ قیمت یا گہر حکمِ شاہی بہتر ہے یا موتی اس وقت ادب کا مقتضا یہی ہے کہ کفار کی گردنوں کو اڑایادیاجائے ؎ کہ بے حکم شرع آب خوردن خطا ست دگر خوں بفتویٰ بریزی روا ست بغیر حکمِ شریعت کے ایک قطرہ پانی پینا بھی جرم ہے جیسا کہ ماہِ رمضان کے روزوں کا قانون ہے اور جب جہاد کا فتویٰ ہوجائے اس وقت خون بہانا واجب ہے۔ مولانا فرماتے ہیں ؎ گوہرِ حق را با مرِ حق شکن بر زجاجہ دوست سنگِ دوست زن ترجمہ : گوہرِ حق کوامرِ حق سے توڑدو۔ دوست کے شیشی کو(مخلوقاتِ اِلٰہیہ کو) دوست ہی کے حکم کے پتھر سے یعنی امرِ حق سے توڑ ڈالو۔ دوست کے حکم کی عظمت کے سامنے شیشے کی قیمت نظر نہ آوے، ایسا نہ ہو کہ شیشے کی قیمت دوست کے حکم کی تعمیل سے مانع ہوجائے۔ اس حکایت میں مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک کلّیہ بتادیاہے، جس سے انسان اپنی عبدیت وغلامی کو گمراہی ونافرمانی سے محفوظ رکھ سکتاہے۔ فائدہ:اس واقعہ میں سالکین کے لیے یہ سبق ملتاہے کہ نفس کی وہ تمام خواہشات جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہیں خواہ کتنی ہی قیمتی اور لذیذاورحسین نظر آئیں مگر عاشق اور جانبازِالٰہی کو چاہیے کہ کسی بری خواہش پر ہرگز نظر نہ کرے اور اس خواہش کے موتی کو حکم الٰہی کے پتھر سے بے دریغ توڑدے اور کسی حسین امرد یاعورت اجنبیہ کو نہ دیکھے، خواہ جان ہی نکل جانے کا اندیشہ ہو۔