معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ناگوارہے تو میں تجھے چھوڑ کر دوسرے سے بغل گیر ہوجاؤں تو بتاؤ وہ کیا جواب دے گا۔ اگر واقعی عاشق ہے تو یہی کہے گا ؎ نکل جائے دم تیرے قدموں کے نیچے یہی دل کی حسرت یہی آرزو ہے اس وقت دوسرے اس کے جسم کی تکلیفِ ظاہری سے یہ سمجھیں گے کہ یہ بڑی تکلیف میں ہے لیکن خود اس کے دل سے پوچھوکہ وہ کیسے باغِ عیش میں ہے۔ وہ تو ان لمحات کو غنیمت جانے گا اور چاہے گاکہ یہ زمانہ طویل سے طویل ترہوجاوے۔ پس جب مجاز میں یہ اثرہے توحقیقت کی لذتوں کا خود اندازہ لگالو۔ جرعہ خاک آمیز چوں مجنوں کند صاف گر باشد ندانم چوں کند (رومیؒ) جب تو اللہ تعالیٰ کی محبت کی ایسی شراب پی کر مست ہورہاہے جو تیرے گناہوں کی وجہ سے خاک آلودبھی ہے اگر یہ صاف ہوتی تو نہ جانے تجھے کتنا مست کرتی ؎ اللہ رے جب یہ ہے مجازات کا عالم کیا ہوگا حقیقت کے کمالات کا عالم (مولانامحمداحمدرحمۃ اللہ علیہ) اس مثال سے سمجھنا چاہیے کہ جو لوگ کشتۂ عشقِ الٰہی ہیں وہ اگرچہ بظاہر تکالیف و مصائب میں گھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کپڑوں میں پیوند، چہرہ فاقوں سے زرد و خستہ ہے لیکن ان کے باطن میں قرب ومعیتِ حق کا جو باغ لہرارہاہے اس کی خبراگر سلاطین کو ہوجائے تو تخت وتاج کالطف بھول جائیں۔ ہاں وہاں ایں دلق پوشانِ من اند صد ہزار اندر ہزاراں یک تن اند (رومیؒ )