معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
نالۂ مؤمن ہمی داریم دوست گو تضرّع کن کہ ایں اعزازِ ا وست حق تعالیٰ کی محبت سے بندہ کبھی آزاد نہیں ہوسکتا۔ حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ پابند ِ محبت کبھی آزاد نہیں ہے اس قید کی اے دل کوئی میعاد نہیں ہے اب اگر کسی کو یہ اشکال ہو کہ اس سے تو معلوم ہوتاہے کہ عاشقوں کو تو بڑی مصیبت و کوفت ہوتی ہوگی، تو عشقِ حق بجائے نعمت کے زحمت ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اشکال دورسے نظر آتاہے اور بظاہر عشق ایک خونی منظر پیش کرتاہے ؎ عشق از اول چرا خونی بود تا گریزد ہر کہ بیرونی بود ( رومیؒ ) دورسے عشقِ حقیقی خونی نظر آتاہے تاکہ غیر مخلص اور غیر عاشق کبھی اس راہ میں قدم نہ رکھے۔ یہ خونی منظردراصل حریمِ کوئے دوست کا پاسبان ہوتاہے کہ عاشقِ خام ادھر نہ آئیں۔ورنہ جب محبتِ تام نصیب ہوجاتی ہے تو اس وقت عاشق کی شان یہ ہوتی ہے ؎ نشود نصیبِ دشمن کہ شود ہلاکِ تیغت سرِ دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی عاشقِ صادق تو یہ کہتاہے کہ اے محبوب!یہ نصیب دشمن کانہ ہوکہ وہ آپ کی تیغ سے ہلاک ہو۔ دوستوں کا سر سلامت رہے کہ آپ خنجر آزمائی کریں۔ ایک عاشق جو کسی کے عشق میں دس برس سے گھل رہاہو اور فراق میں سوکھ کر کانٹا ہوگیاہو کہ اچانک اس کا محبوب آکراسے اس زور سے دبادے کہ پسلیاں ٹوٹنے لگیں اور آنکھیں باہر کونکلنے لگیں اور وہ محبوب یوں کہے کہ اگر تجھے میری یہ حرکت