معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکایۃً فرماتے ہیں کہ یہ خستہ حال گدڑی پوش ہمارے خاص بندے ہیں، کہیں لاکھوں میں ایک ایسا صاحبِ نصیب پیدا ہوتاہے۔ حق تعالی کی محبت ہی مقصد ِ کائنات ہے اور یہی جانِ حیات ہے۔ الغرض حضرت بلال رضی اللہ عنہ بصد شوق صدہامصائب جھیل رہے تھے کیوں کہ ان کے سامنے رضائے حق کا انعامِ عظیم تھا ؎ عاشقم بر رنجِ خویش و در خویش بہرِ خوشنودی شاہِ فردِ خویش (رومیؒ ) میں اپنے محبوبِ حقیقی کی رضا کے لیے اپنے رنج وغم ودردپر عاشق ہوں۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے متعدد بارنصیحت فرمانے کے باوجود جب ہر بار یہی تماشا دیکھا کہ وہ یہودی ظلم کررہاہے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ اَحَد احد کا نعرہ لگارہے ہیں تو اس ماجرے کو محبوب رب العالمین رحمۃ للعٰلمین صلّی اللہ علیہ وسلّم کے سامنے پیش کیا۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے مصائب سن کررحمۃ للعٰلمین صلّی اللہ علیہ وسلّم کی آنکھیں درد سے اشکبار ہوگئیں۔ ارشاد فرمایاکہ اے صدیق! پھر کیا تدبیر ہے کہ بلال کو اس بلاء سے نجات ملے۔ حضرت صدّیقِ اکبررضی اللہ عنہ نے عرض کیایارسول اللہ! انھیں میں خرید لیتاہوں۔ حضورصلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایاکہ اچھا تو بلال (رضی اللہ عنہ) کی خریداری میں میری بھی شرکت ہوگی۔ اللہ اکبر! کیا نصیبہ تھا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا کہ خود رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم ان کو خرید رہے ہیں ۔ اس کالے جسم میں اللہ کی محبت سے ایسانورانی دل تھاکہ بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلّم اس کی خریدار ہوگئی۔ الغرض حضرت صدّیق اکبررضی اللہ عنہ اس یہودی کے پاس گئے، اس وقت بھی وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو زد وکوب کررہاتھا۔ فرمایاکہ اس ولی اللہ کو کیوں مارتاہے؟