معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اسی محبتِ حق کا نام حقیقی محبت ہے لیکن افسوس! آج کل لوگ نفس پرستی کو محبت کہتے ہیں۔ توبہ توبہ!یہ ہرگز محبت نہیں ۔ جو عشق حسنِ مجازی سے ہو وہ عشق نہیں فسق ہے جو فساد ہے روٹی کا۔ اگر روٹی نہ ملے تویار لوگ عشق بھول جائیں اور روٹی مانگنے لگیں اور حق تعالیٰ کا عشق چوں کہ مؤمن کے خمیر میں رکھ دیاگیاہے اس لیے اگر روٹی نہ بھی ملے تو بھی مؤمن کے قلب میں ذرّہ برابر حق تعالیٰ کی محبت کم نہیں ہوتی۔ محبت درحقیقت اس تسلیم کا نام ہے کہ محبوبِ حقیقی اس میں متصرف ہو اور بندہ ہر تصرف سے راضی رہے۔ عاشقی چیست ؟ بگو بندۂ جاناں بودن دل بدستِ دگرے دادن و حیراں بودن عاشقی کیاہے ؟ کہو کہ عاشقی محبوب کی غلامی ہے اور دل اپنے محبوب کو دےکر حیران ہونے کا نام ہے۔ حق تعالیٰ کو اپنے بندوں کی خستہ حالی وگریہ وزاری بہت محبوب ہے۔ اور باوجود صدہا رحمتوں اور عنایتوں کے اپنے مقبولین کی دعا کبھی تاخیر سے قبول فرماتے ہیں تاکہ اس کی آہ وزاری کا سلسلہ حاجت پوری ہونے سے بند نہ ہوجائے اور ہمارے حضورمیں اے اللہ، اے اللہ کہتارہے اور روتارہے۔ خوش ہمی آید مرا آوازِ او واں خدا یا گفتن و آں رازِ او مولانا فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ کبھی بندے کی قبولیتِ دعا میں تاخیر فرمادیتے ہیں تاکہ مناجات میں وہ دل سوزی کے ساتھ گریہ وزاری کرے ، اس کی یہ آواز حق تعالیٰ کو بھلی معلوم ہوتی ہے اور اے اللہ، اے اللہ کہنااللہ کو اچھا معلوم ہوتاہے پس تاخیرِ قبولیت ایسے بندوں کے ساتھ رحمت ویاری ہوتی ہے نہ کہ بے گانگی و بے قدری۔ حق تعالیٰ کے ساتھ مناجات وسرگوشی مؤمن کابہت بڑا اعزاز ہے۔