معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اسی مقام کو حضرت مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ باز پندش داد باز او توبہ کرد عشق آمد توبۂ او را بخورد جب پھر حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے ان کو سکوت و اخفاء کی نصیحت فرمائی تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے پھر توبہ کی لیکن جب عشق آیا توان کی توبہ کو کھاگیا یعنی توبہ ٹوٹ گئی۔ عاشق کو ذکرِ محبوب کے بغیر کہاںسکون مل سکتاہے ؎ دلِ مضطرب کا یہ پیغام ہے ترے بن سکوں ہے نہ آرام ہے تڑپنے سے ہم کو فقط کام ہے یہی بس محبت کا انعام ہے الغرض حضرت بلال رضی اللہ عنہ باوجود ہزار مصائب وآلام کے رازِ عشق کومخفی نہ رکھ سکے اور نعرۂ اَحد ظاہرہوتارہا۔ مولانافرماتے ہیں ؎ عشق خونی چوں کند زہ بر کماں صد ہزاراں سر بپولے آں زماں (رومیؒ) عشق خونی جب اپنا چلّہ کمان پرچڑھاتاہے تو اس وقت ہزاروں سر ایک پیسے کے عوض بک جاتے ہیں ؎ تن بہ پیشِ زخم خارِ آں جہود جانِ او مست و خرابِ آں ودود حضرت بلال رضی اللہ عنہ کاجسم تو اس ظالم یہودی کے سامنے زخم خوردہ تھا لیکن ان کی روح حق تعالیٰ شانہٗ کی بارگاہِ قرب میں مست وخرابِ عشق ہورہی تھی اور بہارِ لازوال لوٹ رہی تھی۔