معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
بوئے جاناں سوئے جانم می رسد حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اس مظلومیت کو دیکھ کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا دل تڑپ گیا اور آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے۔ انھوں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کوالگ بلاکر سمجھایاکہ تنہائی میں اللہ کا نام لیا کرو۔ اس موذی کے سامنے ظاہر مت کرو، ورنہ یہ ملعون ناحق تم کو ستائے گا۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیاکہ اے محترم! آپ حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ وسلّم کے صدیق ہیں۔ آپ کی نصیحت قبول کرتاہوں۔ دوسرے دن پھر حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کا ادھر سے گزر ہوا، دیکھتے ہیں کہ پھر وہی ماجرا ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اَحد اَحد پکاررہے ہیں۔ اور وہ یہودی ان کو بری طرح زد وکوب کررہاہے یہاں تک کہ جسم خون سے لہولہان ہوگیاہے۔ اس دردناک منظرکو دیکھ کرآپ رضی اللہ عنہ تڑپ گئے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو پھر نصیحت فرمائی کہ بھائی! کیوں اس مؤذی کے سامنے اَحد احد کہتے ہو۔ دل ہی دل میں خاموشی کے ساتھ اَحد اَحد کہتے رہاکرو۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اچھا پھر توبہ کرتاہوں، اب آپ کے مشورے کے خلاف نہ کروں گا ۔لیکن ؎ عشق آمد لا اُبالی فَاتّقُوا عشق کا مزاج تو لااُبالی ہوتا ہے۔ تابِ زنجیر ندارد دلِ دیوانۂ ما عشق کب ڈرتاہے رسن و دار سے عشق بے پروا ہے جانِ زار سے ( اخترؔ ) بلبل کو نہ کرتو اے ناداں پابندِسکوت و خاموشی جب اس کو چمن یاد آئے گا فریاد لبوں تک آئے گی (اخترؔ )