معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
کی حیثیت ایک مزاح سے زیادہ نہیں ہوتی، اس کی ایک تڑپ تمام خندقوں کو عبورکرلیتی ہے اور اس کا دردِ باطن اس کو تمام ظاہری تکالیف سے بے نیاز کردیتاہے ؎ دعویٰ مرغابی کردہ است جاں کے ز طوفانِ بلا دارد فغاں ؟ (رومیؒ ) جان نے جب مرغابی ہونے کا دعویٰ کردیاہے تو پھر طوفانِ بلا سے اس کو کب گلہ وفریادہے؟ مرغابی طوفان سے مغلوب نہیں ہوتی بلکہ موجوں کے نشیب و فراز پر غالب رہتی ہے۔ اسی طرح جانِ عاشق طوفانِ حوادث سے متأثر ہوئے بغیر حق تعالیٰ کا راستہ قطع کرتی ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا نعرۂ اَحد لگانا تھاکہ اس یہودی کا غیظ وغضب ان پر ظلم اور زد وکوب کی صورت میں برس پڑا۔ آپ کو اتنا ماراکہ لہو لہان کردیا اور اسی زخم کی حالت میں گرم گرم ریت پر گھسیٹتا اور کہتاکہ اب آیندہ وحدانیت کا نعرہ لگانے کی جرأت نہ کرنا۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ بزبانِ حال عرض کرتے۔ بجرمِ عشق تو ہم می کشند و غوغائیست تو نیز بر سر بام آکہ خوش تماشائیست (اے اللہ!) آپ کی محبت کے جرم میں یہ کفار مجھ کو قتل کررہے ہیں اور شور برپا کررہے ہیں۔ اے محبوبِ حقیقی! آپ بھی آسمانِ دنیا پر تشریف لائیے اور اپنے عاشق کے اس تماشے کو دیکھیے کہ کیا اچھاتماشا ہے۔ ایک دن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس طرف سے گزرے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ اسی خستہ وخراب اور لہولہان ہونے کی حالت میں اَحد احد کا نعرہ لگارہے تھے۔ یہ آواز سن کر حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے۔ اس آواز میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی جانِ پاک کوبوئے محبوبِ حقیقی محسوس ہوئی جس سے آپ محوِ لذت ہوگئے ؎