معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
لیے دن رات ہر ممکن کوشش میں مشغول تھے لیکن حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ہم تو اپنا نور مکمل کرکے رہیں گے۔ چاہے کفار کو کتناہی ناگوار ہو۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اگر چاہتے تو اپنا ایمان مخفی رکھ سکتے تھے اور اس اخفاء کی بدولت کفار کی ایذا رسانی سے محفوظ رہ سکتے تھے لیکن حق تعالیٰ کی محبت نے کلمۂ توحید ظاہرکرنے پر انھیں مجبور کردیا اور نعرۂ اَحَد لگانے پر عشقِ حقیقی نے ان کو مضطر کردیا۔ جانِ او چو خنجرِ عشقش بدید پا بجولاں جانبِ مقتل دوید (اخترؔ ) جانِ عاشق نے جب محبوب کے ہاتھ میں خنجرِ عشق دیکھ لیاتوبے خوف و خطر مقتل کی جانب دوڑ پڑی ؎ خنجرش چو سوئے خود راغب بدید سر نہادن آں زماں واجب بدید جب اس عاشقِ صادق نے محبوب کے خنجر کو اپنی طرف راغب دیکھا توسرکواس وقت تہہ خنجر رکھ دینا اپنے اوپر واجب سمجھا ؎ نعرۂ مستانہ خوش می آیدم تا ابد جاناں چنیں می بایدم اے محبوبِ حقیقی ! آپ کی یاد میں نعرہ ہائے عشق مجھے اچھے معلوم ہوتے ہیں اور قیامت تک اے محبوب! اسی طرح مستانہ نعرے لگانا چاہتاہوں ؎ بر سرِ مقطوع اگر صد خندق است پیشِ درد ا و مزاحِ مطلق است (رومیؒ ) سربریدۂ عشقِ حق کے سامنے اگر سو خندقیں ہوں لیکن اس کے دردِ عشق کے سامنے ان