احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
۳ … مرزا کے الہامی مقدمات بی اے شرف گورداسپوری جب سے مرزاقادیانی نے مقدمے شروع کئے ہیں گورداسپور صدر کچہری میں مریدوں کا ایک گروہ بھی اس کمرہ میں جہاں مدعی یا مدعا علیہ کی حیثیت میں مرزا قادیانی حاضر ہوتے ہیںمرید بھی ہمراہ ہوتے ہیں۔ اس وقت کا نظارہ عجیب ہوتا ہے کوئی تو کان میں بات کہہ رہا ہے کوئی رومال لئے ہوئے ہے، کوئی پینے کے پانی کا لوٹا لئے بیٹھا ہے۔ کوئی دوڑا دوڑا بھاگا کتابیں لارہا ہے۔ کوئی الہامات کی تصدیق، کوئی جرح قدح کی نقل کررہا ہے۔ کوئی وکیل صاحب کے لئے کرسی کی فکر میں ہے۔ غرض مرید طرح طرح کے فرائض زوروشور سے بجا لارہے ہیں۔ کیا مجال کہ تماشبینوں میں سے کوئی ذراسی بات بھی مرزا قادیانی کے برخلاف پیش کرے اگر بھولے سے کرے تو مریدوں کا گروہ جھٹ سے لگے بے حرمتی کرنے۔ بھلا شریف اور بھلا مانس کس طرح مرزائی گروہ کی اشتعال آمیز سخت کلامی سن سکے اگر کسی نے سوال کیا تو سوال کچھ، جواب کچھ اور وہ بھی ایسی شیریں کلامی سے جو مرزا قادیانی کی کتب سے سب پر اظہر وعیاں ہے۔ خود بوڑھے میاں قادیانی کیسی رنگین عبارت سے بزرگان سلف کو یاد فرماتے ہیں۔ خصوصاً مسیحی مذہب کے بزرگوں اور عیسیٰ مسیح کو جس کے آپ مثیل ہونے کے مدعی ہیں۔ ۱۳؍جنوری ۱۹۰۴ء کو اس مقدمہ لائبل میں جو مولوی کرم الدین صاحب کی طرف سے بنام مرزا قادیانی وحکیم فٗضل الدین بھیروی دائر تھا۔ قریب ساڑھے ۱۱؍بجے کے قانونی بحث شروع ہوئی۔ مولوی صاحب نے الفاظ استغاثہ کی کتب لغت، عربی، فارسی، انگریزی، تفاسیر، حدیث اور خود مرزا قادیانی کی تصنیفات سے مدلل تشریح کی اور اپنی حیثیت اور سندیں پیش کیں۔ پھر تو مرزائیوں کے ایسے چھکے چھوٹے کہ سنا گیا رات کو مرزا قادیانی بیمار ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب کے سرٹیفکیٹ سے معلوم ہوتا کہ وہ ایک ماہ تک عدالت میں حاضر نہیں ہوسکتے اور پھر حکیم فضل الدین نے زیردفعہ ۲۶؍ضابطہ فوجداری مہلت مانگی کہ چیف کورٹ میں ہم انتقال مقدمہ کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی دوسرے استغاثوں ۴۱۱و۵۰۰ کی نسبت بھی درخواست گزاری۔ عدالت نے ۱۴؍فروری ۱۹۰۴ء تک مہلت دی۔ اس کے بعد پہلے مقدمہ میں مولوی صاحب کی بریت کا حکم سنا کر اس فیصلہ کو حرف بحرف پڑھا جو ۱۹ورق کا انگریزی میں لکھا ہوا تھا۔ ۱۳؍جنوری ۱۹۰۴ء کا دن مرزا کے گروہ کے لئے نہایت نحوست وشکست کا دن تھا