احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
کے اپنا پیٹ پیٹتا اور رقیبوں کی جان کو روتا اور حضرت اقدس کی قدر دانی اور مرتبہ سنجی کا ماتم کرتا ہوں۔ افسوس ہے کہ اس روسیاہ بدقسمت کو دین کھو کر بھی دنیا نہ ملی۔ ہمارے خیال میں اگر عیسائی ہوجاتا تو بہت مزے میں رہتا۔ اصطباغ پاکر عیسائیوں کا اولشن بیف اور نان پائو اور برانڈی تو کبھی کبھی مل جایا کرتی۔ میں ایسا اور میں ویسا۔ مجھ میں وہ ملکہ اور تبحر اور علوم وفنون میں وہ لیاقت اور مہارت وطلاقت ہے کہ قادیان کے مرزائیوں کو پانچ پانچ برس پڑھائوں۔ علی ہذا یہ مردود ایڈیٹر الحکم کی اکثر مذمت کرتا ہے کہ اس کی حیثیت اور بساط ہی کیا ہے۔ الحکم میری ایڈیٹری میں نکلے تو دکھا دوں کہ بروزی مضامین ایسے ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ پرانے خیال کا گھامڑ ہے اردو کی دو سطریں بھی صحیح نہیں لکھ سکتا۔ ایڈیٹر الحکم کے قلم کی جولانیوں کے کیا کہنے ہیں یہ اس کے سامنے ایسا بطی السیر ہے جیسے ریلوے ٹرین کے مقابلے میں کمہار کا لنگڑا گدھا۔ وہ کہتا ہے کہ فاضل امروہی دیکھ بھال کر سوچ ساچ کر کچھ گھڑ لیتے ہیں مگر طلیق اللسان اور فصیح البیان ہونا تو کجا تقریر بھی صاف نہیں۔ جا بجا یوں الجھتے ہیں۔ جیسے کٹی ہوئی کسی اناڑی کی گڈی۔ علیٰ ہذا البدر کا ایڈیٹر بھی واجبی ہی لیاقت رکھتا ہے۔ ہاں حکیم الامت کچھ چیز ہیں۔ مگر تقریر میں وہ بھی گھٹنیوں چلتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ایڈیٹر الحکم طامع بہت ہے۔ دق کرتا ہے سال بھر میں دو دو دفعہ خریداروں سے قیمت وصول کرتا ہے۔ الحکم کی اشاعت تو زیادہ ہے مگر کم بتاتا ہے اور یہاں کے احمدیوں نے اسی وجہ سے الحکم کی خریداری بند کردی اور البدر منگانا شروع کردیا۔ اس کی قیمت بھی کم یعنی اڑھائی روپے الحکم کا ایڈیٹر تو گھائو گھپ اور نحلقی بطخ ہے۔ بے حساب الم غلم کھاتا ہے اور پیٹ نہیں بھرتا۔ ہماری رائے میں تو ایسا بدخواہ اور حاسد ناک کان کاٹ کر مرزائی مشن سے نکال دینے اور گدھے پر سوار کرکے جلا وطن کردینے یا پھانسی دینے کے لائق ہے۔ آئندہ اختیار۔ تعارف مضامین … ضمیمہ شحنۂ ہند میرٹھ سال ۱۹۰۴ء ۲۴؍نومبر کے شمارہ نمبر۴۴؍کے مضامین ۱… مرزا قادیانی کا نیا سوانگ۔ پبلک میگزین! ۲… قادیانی سری کرشن سیالکوٹ میں۔ اخبار الحدیث! ۳… مرزائیوں کرشن جی مہاراج کو ڈنڈوت کرو۔ مولانا شوکت اﷲ میرٹھی!