احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
ہے۔ اس کو آزادی مذاہب کا بڑا پاس ہے وہ حتی الوسع نہیں چاہتی کہ کسی کے مذاہب میں خواہ نیا ہو یا پرا نا مداخلت کرے۔ پس مرزا قادیانی کی خوش قسمتی ہے کہ باوصف دل آزاری تمام اہل مذاہب کے جو گورنمنٹ کی سچی وفادار رعایا ہے اب تک قانون سڈیش میں نہیں لپیٹے گئے۔ میں امام الزمان ہوں میں مسیح موعود ہوں۔ مجھ پر ایمان لانا فرض ہے اور جو شخص امام الزمان پر ایمان نہ لائے وہ واجب القتل ہے۔ آخر اس کے کیا معنی ہیں۔ کیا مذہب اسلام میں ایسا حکم ہے۔ اسلام میں تو ’’لااکراہ فی الدین‘‘ اور ’’لکم دینکم ولی دین‘‘ وارد ہے اس سے مرزا قادیانی کی نیت صاف ظاہر ہے کہ وہ اس حیلے سے ہفت اقلیم کا بادشاہ بننا چاہتے ہیں اور اگر قابو چلے تو خدا جانے اپنے منکروں کی کیسی گت بنائیں مگر مرزا قادیانی نے اپنی نیت پر یوں پردہ ڈالا کہ جہاد کی مخالفت کی اور جہاد بھی وہ جس کا پتا مہذب ومقدس اسلام میں تو کجا کسی وحشی سے وحشی مذہب میں بھی نہیں مل سکتا۔ بساط تو یہ ہے کہ جہاد کے نام سے بظاہر لرزہ چڑھتا ہے اور نیت ایسی کھوٹی کہ ہفتم اقلیم کو ہڑپ کر جائیں اور بجز ان لوگوں کے جو ان پر ایمان لائیں کسی کوروئے زمین پر زندہ نہ چھوڑیں۔ یہ اس صورت میں ہے جبکہ ان کے پاس بقول خود دو لاکھ نہتی فوج ہے اور اگر دس پانچ لاکھ مسلح فوج مل جائے تو یقینا نمرود کی طرح خدائی کا دعویٰ کریں۔ آخر مرزا قادیانی آسمانی باپ کے لے پالک توہیں ہی۔ بالغ ہوکر آسمانی بادشاہی کے پورے مالک بن جائیں گے کیونکہ لے پالک ہی اپنے باپ کی میراث کا مالک بنتا ہے۔ یہ ہے مرزا قادیانی کے مشن کا پولیٹیکل پہلو جس کو بجز مجدد السنہ مشرقیہ کے کوئی نہیں جان سکتا۔ (ایڈیٹر) تعارف مضامین … ضمیمہ شحنۂ ہند میرٹھ سال ۱۹۰۴ء ۲۴؍اپریل کے شمارہ نمبر۱۶؍کے مضامین ۱… آسمانی ہائی کورٹ اور پنجاب چیف کورٹ۔ قاسم علی خان ہیڈ کلرک سرہند! ۲… نبی اور مجدد میں فرق۔ مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! ۳… مرزائی جماعت ۔ مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! ۴… وہی مدنی شاہ والا معاملہ۔ مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! ۵… گالیوں بھرے خطوط۔ مولانا شوکت اﷲ میرٹھی!