احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
ربوہ کی دینی حس اور غیرت قصر خلافت کے اندر سنگینوں کے پہرہ میں ۳۸۲ افراد کے انتخابی ادارہ میں سے صرف ۲۰۵ افراد کی موجودگی میں جن میں ۴۵ ووٹروں نے اپنا حق ووٹ ہی استعمال نہیں کیا اور خلافت کے دوسرے امیداور مرزا رفیع احمد صاحب کا نام جن کا نام تجویز کرنے والوں اور ان کے حمائتیوں کو قبل از وقت خاندان مسیح موعود کے ایک زندہ چیف جس نے کوئی دلچسپی جماعت کے کاموں میں نہیں لی تھی کہ جس کے وقار کا مدار محض عداوت، اس سے قبل از وقت انتباہ بھی کر دیا تھا کہ اگر مرزاناصر احمد کے خلاف کوئی نام تجویز کیاگیا اور مرزامحمود احمد کے منشاء کے خلاف کوئی ایسا قدم اٹھایا گیا۔ جس سے فرزند کبیر کو وراثت خلافت سے محروم ہونے کا خفیف اندیشہ ہوا تو وہ خاندان کے چیف سارے نظام پر خود قبضہ کر یں گے۔ ان حالات وواقعات کے باوجود اہل ربوہ کی دینی حس اور غیرت اس قدر مفلوج ہوچکی ہے کہ نام نہاد خالد بن ولید بھی مرزاناصر احمد کو خدا کا قائم کردہ خلیفہ کہنے پر مجبور ہیں اور جب انہیں سیدنا حضرت نبی کریمﷺ اور مسیح موعود کے فرمودات میں کوئی تائیدی کلمہ مسیر نہیں آیا تو یہودیوں کی روایات ایک کتاب طالمود کو اپنی تائید میں پیش کرنے کی ناکام جسارت پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ ’’انا ﷲ وانا الیہ راجعون‘‘ مرزاناصر کو چیلنج ہم مرزاناصر احمد کو چیلنج کرتے ہیں کہ اگر واقعی اپنے آپ کو نیک وصالح آیت استخلاف کے تحت خدا کا قائم کردہ خلیفہ سمجھتے ہیں تو حلف مؤکد بعذاب کے ذریعہ ایک معینہ مدت کے اندر خداتعالیٰ سے حق وباطل کا فیصلہ طلب کریں۔ لیکن یہ لوگ ایسا ہرگز نہیں کریں گے۔ کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ میاں محمود احمد نے حلف مؤکد بعذاب کے تحت جھوٹا دعویٰ کیا اور اس کا عبرتناک انجام ہوا۔ میاں محمود احمد نے ان الفاظ میں خدائی عذاب کو دستک دی۔ لکھتے ہیں: ’’میں اس واحد اور قہار خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے اور جس پر افتراء کرنے والا اس کے عذاب سے بچ نہیں سکتا کہ خدا نے مجھے اس شہر لاہور میں ۱۳ٹمپل روڈ پر شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کے مکان پر یہ خبر دی کہ میں ہی مصلح موعود ہوں۔ جس کے ذریعہ اسلام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا اور توحید دنیا میں قائم ہوگی۔‘‘ (الفضل مورخہ یکم؍مارچ ۱۹۴۴ء) قادیان سے نکالے گئے اس حلف مؤکد بعذاب کے کھانے اور جھوٹا دعویٰ کرنے کی دیر تھی کہ خدائی عذاب نے