احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
۴ … انکار معجزات مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! مرزا قادیانی بقول خود تو کم وبیش تین سو معجزات اب تک دکھا چکے ہیں۔ مگر انبیاء علیہم الصلوٰۃ میں سے کسی نے معجزہ نہیں دکھایا۔ معجزہ خارق فطرت ہے۔ مگر مرزا قادیانی کے لئے عین ہے۔ مردوں کو کسی نے خدا کے حکم سے زندہ نہیں کیا اور بے چارہ مسیح تو کیا زندہ کرتا جو مرزا قادیانی کے نزدیک مہذب انسان بھی نہ تھا۔ جس طرح زندہ کرنا صرف خدا کا کام ہے۔ اسی طرح مار ڈالنا بھی اسی کا کام ہے۔ مگر مرزا قادیانی نے بذریعہ اپنے جلاد ایڈیکانگ (طاعون) کے لاکھوں آدمیوں کو مار ڈالا اور جو مخالف مرتا ہے اس کو مرزا قادیانی ہی مارتے ہیں۔ آتھم بھی پیشینگوئی کی میعاد کے اندر ہی مر گیا ہوتا مگر وہ دل میں مرزا قادیانی پر ایمان لے آیا اس لئے نہ مرا۔ اگرچہ اس نے ایمان لانے کا بظاہر اقرار نہ کیا۔ مرزا قادیانی نے بارہ ہزار کی تھیلیاں بھی جھکا دیں کہ اگر آتھم یوں کہہ دے کہ میرے دل پر خوف غالب نہیں ہوا یا میں دل میں ایمان نہیں لایا تو یہ تھیلیاں اس کی اور اس کے باپ دادا کی مگر آتھم کا فولادی دل بارہ سیر چاندی پر بھی نہ پگھلا۔ یہ عجیب نبی ہے کہ اپنی نبوت کا انکار کرنے والے کو انعام دیتا ہے اور جب دنیا میں انعام سبز دکھا کر مجبور کرتا ہے کہ میری نبوت کا انکار کر تو شاید ااسی انکارکے باعث آخرت میں جنت کا مالک کر دے۔ کیوں بھئی مرزائیو! اب کیا صلاح ہے۔ جب دنیا میں دولت اور آخرت میں جنت آپ کے بروزی نبی نے منکروں پر لٹا دی تو آپ کے واسطے کیا رہا؟ ڈھاک کے تین پات وہی مثل ہوئی کہ گھر کے نہ گھاٹ کے۔ خیر یہ تو انکار معجزات کا جملہ معترضہ تھا اب اصل حقیقت سنئے کہ میرٹھ میں چند مرزائی ہیں ہم سے اکثر ملاقات رہتی ہے اور معجزات پر بحث ہوتی ہے۔ ایک روز حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معجزہ طلب کرنے پر بحث ہوئی۔ ’’رب ارنی کیف تحی الموتیٰ قال اولم تؤمن قال بلیٰ ولکن لیطمئن قلبی قال فخذ اربعۃ من الطیر فصرہن الیک ثم اجعل علی کل جبل منہن جزائً ثم ادعہن یاتینک سعیا (بقرہ:۲۶۰)‘‘ مفسرینؒ نے جو کچھ اس آیہ کی تفسیر فرمائی ہے وہ تو علماء وناظرین ضمیمہ پر بخوبی روشن ہے مگر ہم نے اس پر حسب ذیل مجددانہ بحث کی۔ ہم نے کہا بے شک محی اور ممیت خدائے تعالیٰ کی صفت ہے تم معجزات انبیاء کے منکر ہو مگر کیا قدرت الٰہی کے معجزات کے بھی منکر ہو جو ہمیشہ اور ہر وقت بطور سنت اﷲ معجزات دکھاتی