احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
سے حیلہ گر ہے۔ وہ باطن سے دنیا ساز ہے نہ کہ نبی۔ لیکن مرزا قادیانی برابر اپنے کانشنس کے خلاف کارروائی کررہے ہیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ پیشینگوئیاں پوری نہیں ہوئیں مگر اقرار نہیں کرتے اور برابر تاویلیں چھانٹتے رہتے ہیں۔ گورنمنٹ میں بار بار اپنی غلامی کا میموریل بھیجنا اور اپنی خیر خواہی وفاداری مشتہر کرنا ظاہری خوشامد اور زمانہ سازی اور بالکل کانشنس کے خلاف ہے کیونکہ جب آپ مسیح موعود ہیں اور کسر صلیب اور قتل خنازیر کے لئے دنیا میں آئے ہیں تو صلیبی اور خنازیری گورنمنٹ کو کیوں اچھا سمجھنے لگے مگر عصمت بی بی ازبے چادری ہے۔ اس میں بالکل شک نہیں کہ اگر آپ کا قابو چلے تو اپنے تمام مخالفوں کو چن چن کر تہ تیغ کر ڈالیں۔ ۳ … آنحضرتa کا کسر شان مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! مرزا قادیانی اپنے جہلاء اور حمقاء میں بیٹھ کر یہی کہتے ہیں کہ عیسیٰ کے زندہ رہنے سے آنحضرتa کی توہین تھی کہ آپ تو وفات پا جائیں اور عیسیٰ مسیح زندہ رہیں۔ لہٰذا آپ نے ان کو مار ڈالا گویا تمام صحابہ اور محدثین اور مفسرین آج تک آنحضرتa کی توہین کرتے رہے۔ جاننا چاہئے کہ تمام انبیاء کے خصوصیات ایک دوسرے سے جداگانہ ہیں۔ کسی کو کوئی معجزہ دیا گیا ہے کسی کو کوئی۔ مگر یہ آج ہی سنا کہ خصوصیات کے اعتبار سے ایک نبی کے مقابلے میں دوسرے نبی کی توہین ہوتی ہے۔ اگر تمام انبیاء کو ایک ہی معجزہ دیا جاتا تو بہت سے انبیاء کے بھیجنے کی خدائے تعالیٰ کو کیا ضرورت ہوتی۔ معجزہ جس شے سے عبارت ہے وہ درحقیقت خدائے تعالیٰ کی شان جمال وجلال کا ظہور ہے۔ گویا انبیاء جناب باری کی صفات کمال کے مظہر ہیں۔ مگر اندھوں کو بجز خیالی منارے کے کیا سوجھے۔ جب دنیا میں شرک وکفر ریاء اور انانیت خودسری اور تکبر گمراہی اور الحاد وغیرہ پھیلتا ہے تو یہ درحقیقت خدائے تعالیٰ کی شان جلال وجبروت کا مظہر ہوتا ہے۔ آخر دوزخ کے شکم بھرنے کا بھی تو اس نے وعدہ کیا ہے ’’یوم نقول لجہنم ہل امتلئت فتقول ہل من مزید‘‘ چونکہ انبیاء کی صفت انزار اور تبشیر دونوں ہیں تو ان صفات کا وقوع یکے بعد دیگرے ضروری ہے۔ پہلے گھنگھور گھٹا اٹھتی ہے۔ افق پر گھپ اندھیرا چھاتا ہے کانوں کے پردے پھاڑنے والی اور دلوں میں زلزلے ڈالنے والی رعد کڑکتی ہے۔ آنکھوں کو چکا چوند کرنے والی سی بجلی چمکتی ہے اور پھر باران رحمت کا نزول ہوکر مطلع صاف ہوجاتا ہے۔ یہی کیفیت انبیاء علیہ السلام کے نازل ہونے کی ہے۔ ظاہر ہے کہ موجودہ زمانہ شرک اور کفر کے طغیان کا ہے اور رفتہ رفتہ اس حد تک پہنچا ہے