احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
۴ … وہی وفات مسیح مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! جب ایک نبی وفات پاگیا ہے تو دوسرا نبی مبعوث ہوا ہے اور سنت اﷲ اسی طرح جاری رہی ہے۔ یہاںتک کہ انبیاء کا سلسلہ آنحضرتa پر ختم ہوگیا۔ لیکن آج تک کسی نبی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ چونکہ فلاں نبی مرگیا ہے اس لئے میں اس کی جگہ آیا ہوں۔ اور اے لوگو! فلاں نبی کو مردہ سمجھ لینا ہی مجھے نبی مان لینا ۔اس کی مثال ایسی ہے کہ چونکہ فغفور چیں مر گئے ہیں۔ لہٰذا میں ان کا جانشین ہوں۔ اس سے لازم آتا ہے کہ خدائے تعالیٰ لوٹ لوٹ کر ایک تشخص اور صفات کے انبیاء کو بھیجتا ہے۔ اس کے پاس انبیاء کے ڈھالنے کا دوسرا سا نچاہی نہیں یا پہلے ایک ناقص نبی بھیجا اس کے بعد کامل۔ یا پہلے ایک کامل بھیجا اس کے بعد ناقص۔ خدا کو کوئی ضرورت نہیں کہ پہلے ناقص نبی بھیجے اور پھر کامل۔ اس سے حکیم علی الاطلاق کی قدرت وحکمت پر حرف آتا ہے۔ ناقص نبی ہونہیں سکتا۔ پس مرزا کا یہ کہنا کہ میں مثیل مسیح ہوں خود اپنی توہین کرنا اور اپنے کو خاک عجز پر گرانا ہے۔ انہوں نے سمجھا کہ کانا ٹٹو اور بدھو نفر اس وقت تک چل ہی نہیں سکتا جب تک اپنے کو اوروں کا فضلہ خوار اور راتب خوار نہ بنائے یعنی دنیا چونکہ مسیح علیہ السلام کو مانتی ہے۔ لہٰذا میں مثیل مسیح بنوں کیونکہ انہیں اپنی حیثیت اوروجاہت اچھی طرح معلوم ہے لیکن کیا کوئی اپنے کو نبی بنانے سے نبی بن سکتا ہے ؎ خرگر جلّ اطلس بپوشد خراست توریت اور انجیل میں لکھا ہے کہ (تسلی دینے والا) آئے گا مگر آنحضرتa نے اپنے کو مسیح موعود قرار نہیں دیا بلکہ محض رسول۔ کیونکہ اس میں وہی خرابی تھی جو ہم نے اوپر بیان کی کہ قرآن میں ہے۔ ’’وان من امۃ الاخلافیہا نذیر (فاطر:۲۴)‘‘ پس مسیح وموسیٰ بننے میں جس طرح آنحضرتa کی توہین تھی اسی طرح انبیاء بنی اسرائیل کی تھی۔ بلکہ خود مسیح نے بنی اسرائیل سے مخاطب ہوکر یوں فرمایا ’’یابنی اسرائیل انی رسول اﷲ الیکم مصدقاً لما بین یدّی من التوراۃ ومبشراً برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد (الصف:۶)‘‘ یعنی اے بنی اسرائیل میں تمہاری ہی طرف رسول ہوں نہ کہ بنی اسمٰعیل کی طرف کیونکہ آنحضرتa بنی اسماعیل میں سے ہیں۔ اب ذرا خیال کرنا چاہئے کہ خدائے تعالیٰ کو تو بنی اسرائیل میں بھی آنحضرتa کا مبعوث ہونا منظور نہ ہوا اور مرزا خود امت محمدیہ میں ہوکر اپنے کو