احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
نصف النہار سے بھی زیادہ روشن ہونے کا زمانہ آگیا لیکن قدرت الٰہی کچھ اور ہی کہہ رہی تھی بالآخر بڑے بول کا سر نیچا ہوا اور ابھی کیا ہے ذرا دیکھتے تو جائیے کیا کیا ہوتا ہے۔ اس خود سری اور خدائی دعویٰ کا کوئی ٹھکانہ بھی ہے کہ اپنی فتح یابی ڈنکے کی چوٹ مشتہر کردی اور نہ صرف ایک، بلکہ متواتر صاف ثابت ہے کہ مرزا قادیانی کو فتح کا کامل وثوق ہوگیا تھا اور تمام مرزائی امت نے اپنے نبی کے الہامات امنا وصدقنا کہہ کر مان لیے تھے۔ مگر اپنے خوارق اور اعمال نامے پر نہ مرزا قادیانی کی نظر تھی نہ مرزائی پارٹی کی۔ اب عدالت میں وہ اعمال نامے پیش ہوئے تو تڑکا ہوگیا۔ اور آنکھیں کھل گئیں کہ کس خمار نخوت میں مبہوت تھے۔ مرزا قادیانی سمجھے کہ میں گورنمنٹ کے سر پر تو پوچا پھیر ہی رہا ہوں کہ جہاد کا مخالف ہوں اور میرا مشن اسی لئے ہے۔ پس جس طرح چاہو خلق اﷲ کی دل آزاری کرو اور انبیاء اور اولیاء اور تمام پیشواہان مذہب کو گالیاں دو گورنمنٹ میری حامی ہوگی۔ میں نے اسی کے منہ کو خوشامد کی رشوت کی چاٹ لگا دی ہے۔ پس وہ مثل مشہور جس کا کھائیے اس کا گائیے پر عمل کرے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ طمع اور خود غرضی اور حب جاہ انسان کو حماقت اور ناعاقبت اندیشی کا پتلا بنا دیتی ہے۔ گورنمنٹ جو ۳۰؍کروڑ انسانوں پر حکومت کررہی ہے۔ مرزا قادیانی نے اپنی دانائی (حماقت) سے اسے نادان سمجھا اور امتناع جہاد کا اعلان ہی بلائے جان ہوگیا۔ گورنمنٹ سمجھ گئی کہ مرزا بلطائف الحیل اپنے کو جہاد کا مخالف بتاتا ہے اور جب اس کی جمعیت دو لاکھ سے بڑھ کر دس پانچ لاکھ ہوجائے گی تو دوسرے مہدیوں کی طرح خود جہاد کرے گا پس مرزا اقراری مجرم ہے۔ (ایڈیٹر) ۴ … مرزائیت سے توبہ از جانب مولوی قاری خلیل الرحمن انبالوی سند یافتہ! حمدونعت کے بعد تمام اہل اسلام کو بشارت تازہ کہ آج بدھ کے روز مغرب کے وقت بتاریخ ۱۳؍ماہ ذی الحجہ ۱۳۱۳ھ ایک عام مجمع کے سامنے تین آدمی جو مرزائی عقیدہ رکھتے تھے میرے ہاتھ پر توبہ کرکے زمرہ مسلمانان میں شامل اور گروہ مومنین میں داخل ہوئے اور توبہ کے وقت مولوی اکبر حسین صاحب لدھیانوی بھی موجود تھے۔ چنانچہ ان کی شہادت بھی اس پر درج ہے۔ مجھے امید کامل ہے کہ اور مرزائی بھی اس اشتہار کو دیکھ کر اپنے باطل عقیدوں سے توبہ کرکے مسلمان بن جائیں گے۔ خداوند کریم ان کو اس کی توفیق عطا فرمائے اورضد اور تعصب کو ان کے دل سے نکال دے۔ آمین! خدا کا شکر ہے کہ پکے باغ کی تینوں مسجدوں بلکہ تمام شہر کے رائیوں نے اتفاق