احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
۲ … تیس۳۰دجالوں کا خروج مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! آن حضرتa نے جس طرح اپنے اشراق قلب اور پیشینگوئیوں سے جن کی مخبر غیب نے آپ کو خبر دی اکثر واقعات آئندہ کا اظہار فرمایا۔ اسی طرح دجالوں کا بھی اظہار فرمایا۔ چنانچہ مشکوٰۃ شریف میں حضرت ابن عمرؓ سے متفق علیہ روایت ہے ’’ثم ذکر الدجال فقال انی لانذر کموہ وما من نبی الاوقدا نذرہ قومہ۔ لقد انذر نوح قومہ ولکنی ساقول لکم فیہ قولا لم یقلہ بنی لقومہ۔ انہ اعور وان اﷲ لیس باعور (بخاری ج۲ ص۱۰۵۵)‘‘ {پھر آپ نے فرمایا میں تم کو ڈراتا ہوں اور کوئی نبی نہیں گزرا جس نے اپنی امت کو دجال سے نہ ڈرایا ہو۔ چنانچہ نوح نے بھی اپنی امت کو اس سے ڈرایا اور میں تم کو اس کا ایک خاص نشان بتاتا ہوں جو کسی نبی نے نہیں بتایا۔ یعنی وہ کانا ہے۔ حالانکہ خدا کانا نہیں۔} مطلب یہ ہے کہ وہ خدائی کا دعویٰ کرے گا اور خدا کی یہ شان نہیں کہ وہ کانا ہو۔ خدا تو جملہ عیوب سے پاک ہے۔ ابن صیاد جو دجال کا نمونہ تھا۔ بعض صحابہ نے شدت مشابہت سے یقین کرلیا کہ ابن صیاد ہی دجال معہود ہے۔ یہاں تک کہ حضرت جابر بن عبداﷲؓ نے حلف اٹھایا اور بقول ان کے عمرؓ نے مگر آنحضرتa نے انکار فرمایا اور خود ابن صیاد نے جابرؓ اور عمرؓ کے زعم کی تردید ابو سعید خدریؓ کے سامنے کی اور کہا کہ اے ابوسعید کیا تو نے آنحضرتa کا ارشاد نہیں سنا کہ دجال کے اولاد نہ ہوگی۔ حالانکہ میری اولاد موجود ہے اور کیا آنحضرتa نے نہیں فرمایا۔ کہ وہ کافر ہے حالانکہ میں مسلمان ہوں۔ اور کیا آنحضرتa نے نہیں فرمایا کہ وہ مکہ اور مدینہ میں داخل نہ ہوگا۔ حالانکہ میں مدینہ سے مکہ کو جارہا ہوں اور وہ حدیث یہ ہے: ’’عن ابی سعید الخدری قال صحبت ابن صیاد الی مکۃ فقال لی مالقیت من الناس یزعمون انی الدجال الست سمعت رسول اﷲ یقول انہ لا یولد لہ وقد ولدلی (مشکوٰۃ ص۴۷۸، باب قصۃ ابن صیاد)‘‘ اور چونکہ (مشکوٰۃ ص۴۷۶، باب ذکر دجال) میں عبیدۃ بن الجراح سے روایت ہے ’’لعلہ سیددر کہ بعض من رانی او سمع کلامی‘‘ یعنی قریب ہے کہ پائیں گے دجال کو بعض وہ لوگ جنہوں نے مجھے دیکھا ہے یا میرا کلام سنا ہے۔ لہٰذا ان پیشینگوئیوں کا ظہور خود آنحضرتa کے زمانہ میں ہوگیا۔ چنانچہ مشکوٰۃ میں