احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
پرستوں کو بھول گئے۔ آپ کے نزدیک نہود میں تو انبیاء گزرے مگر دنیا کے کسی دوسرے مذہب میں ایک بھی نبی نہیں گزرا۔ بدھ مذہب، پارسی مذہب میں کوئی نبی کیوں نہیں گزرا۔ ہاں سکھ مذہب کے نبی گورو نانک پر آپ ویسا ہی ایمان لائے جیسا کرشن پر۔ لیکن ان کے سوا اور بھی بہت سے مذاہب ہیں جن کے متحد ومتفق کرنے کا آپ نے اب تک بیڑا نہیں اٹھایا تاہم کچھ جلدی نہیں اگر یہی لیل ونہار ہیں تو آپ ہنود سے حلال خوروں تک کو یوں ملا دینا چاہیں گے جیسا کھیت میں کھاد۔ اس وقت سری کرشن کی روح کیا کہے گی۔ یہی کہے گی کہ ہے رام ہے رام اس کلجگ میں آئے کر کیسے راخشس اور مہا ملیچھ سے پالا پڑا جس نے ہندو دھرم کو نسٹ کردیا۔ ۳ … احیاء اموات مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! مرزا قادیانی احیاء اموات کو جو سنت اﷲ وفطرت اﷲ کے خلاف بتاتے ہیں تو اپنی عصمت بی بی از بے چارگی کی پردہ دری کرتے ہیں کیونکہ خود بدولت کوئی بروزی کرشمہ نہیں دکھا سکتے۔ اب ہم کلام مجید کے کھلے لفظوں سے احیاء واموات ثابت کرتے ہیں جن میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش نہیں۔ گو مرزا قادیانی تو اس میں بھی لنگڑی اور بے معنی تاویل کی پچر لگائیں گے۔ پڑھو۔ ’’الم تر الی الذین خرجوا من دیارہم وہم الوف حذرالموت فقال لہم اﷲ موتوا ثم احیاہم (بقرہ:۲۴۳)‘‘ {اے محمدa! کیا تو نہیں دیکھتا ان لوگوں کی جانب (یعنی کیا تجھے معلوم نہیں) جو اپنے گھروں (مقام داور دان) سے موت کے ڈر سے نکلے اور وہ ہزاروں تھے اور کہا ان کو اﷲ تعالیٰ نے کہ مر جائو پس وہ مرگئے پھر ان کو زندہ کیا۔} تفسیر جلالین میں اس آیت کے تحت میں یہ عبارت لکھی ہے ’’بعد ثمانیۃ امام او اکثر بدعا نبیہم حزقیل فعاشوا دہرا علیہم اثر الموت لا یلبسون ثوباً الاعاد کالکفن واستمرت فی اسباطہم‘‘ {یعنی یہ ہزاروں آدمی ایک مدت تک زندہ رہے مگر ان پر موت کا اثر باقی رہا۔ کیا معنی کہ جو کپڑا پہنتے کفن کی مانند ہوجاتا (تاکہ معجزہ کا اثر نمایاں رہے) اور ان کے تمام قبائل میں بھی حالت قائم رہی۔} اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ ان کی موت حقیقی موت اور ان کی دوبارہ زندگی حقیقی زندگی تھی اور وہ اسی حقیقی موت کے ڈر کے مارے اپنے گھروں سے بھاگتے تھے۔ نیز حضرت عمرؓ کے زمانے میں ذریت بن برثملاوصی عیسیٰ روح اﷲ کا کوہ حلوان سے آواز دینا اور سعد بن ابی