احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
وہی بات پیش کی جو مشاہدے میں آنکھوں کے سامنے موجود تھی اور آسانی سے اس کی سمجھ میں آسکتی تھی۔ پس فرمایا ’’فان اﷲ یأتی بالشمس من المشرق فات بہا من المغرب‘‘ چنانچہ یہ بات اس کی سمجھ میں آگئی اور ساکت محض ہوگیا۔ اس پر یہ سوال تھا کہ خدائے تعالیٰ بھی مغرب سے مشرق میں آفتاب کے نکالنے پر قادر ہے یا نہیں اگر قدرت ہے تو مرزا اور مرزائیوں کا نیچر ٹوٹ گیا۔ کیونکہ ان کے مذہب میں نقض قانون فطرت محال ہے اور اگر خدائے تعالیٰ مغرب سے مشرق میں آفتاب کے نکالنے پر قادر نہیں تو نمرود اور خدادونوں عدم قدرت میں برابر ہوگئے اور معارضہ ساقط ہوگیا کیونکہ نمرود کہہ سکتا تھا کہ مجھ سے ابراہیم علیہ السلام وہ بات چاہتا ہے جس پر خود اس کا خدا قادر نہیں۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو یہ دکھانا منظور تھا کہ میرا خدا وہ ہے جس کا بنایا ہوا قانون ٹوٹ نہیں سکتا۔ ’’ولن تجد لسنۃ اﷲ تبدیلا‘‘ اور نہ اس کا وعدہ کبھی خلاف ہوسکتا ہے ’’ولن یخلف اﷲ وعدہ‘‘ اگر تجھ میں قدرت ہے تو بھلا اس کا قانون توڑ تو دے اور آفتاب کو بجائے مشرق سے طلوع ہونے کے مغرب سے طلوع تو کردے۔ دیکھو قانون قدرت کا ثبوت ایسا ہوتا ہے جیسا مجدد نے ثابت کردکھایا۔ نہ کہ مرزا اور مرزائیوں کی طرح کہ خدائے تعالیٰ احیاء پر قادر نہیں۔ جس سے خدائے تعالیٰ کی تمام قدرتیں زمین معاذ اﷲ سلب ہوگئیں۔ کیونکہ اس کی مقدورات کی ایک جزئی احیاء بھی ہے جب وہ احیاء پر قادر نہیں تو کسی جزئی پر قادر نہیں۔ حالانکہ اس کی صفت ’’علی کل شئی قدیر‘‘ ہے۔ مرزا قادیانی نے تو خدا کو خدا ہی نہ رکھا ’’لاحول ولا قوۃ الا باﷲ‘‘ ۳ … مرزا قادیانی کی دھونس مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! کوئی فرد بشر ایسا نہیں جس کو دنیا میں خوشی غمی وتکلیف وراحت کے واقعات پیش نہ آتے ہوں۔ اتنا فرق ہے کہ جن لوگوں کا ایمان خدائے برحق پر نہیں وہ تمام واقعات کو ظاہری اسباب اور توہمات کے حوالے کرتے ہیں اور جو لوگ راسخ الاعتقاد ہیں وہ ایک ذرے کی چمک اور ایک قطرے کی سیرابی اور ایک پتے کی حرکت کو بھی خدا ہی کی جانب سے یقین کرتے ہیں۔ مگر ایک ہمارے مرزا قادیانی ہیں کہ انسانوں خصوصاً ان کے مخالفوں کو جو اذیتیں پیش آتی ہیں ان کو اپنی جانب سے بتاتے ہیں اور جو راحتیں اور کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں۔ ا ن کا ذکر تک نہیں کرتے کہ اﷲ کی جانب سے ہیں یا غیر اﷲ کی جانب سے۔ ان کی کامیابیاں اپنی جانب تو کیوں منسوب