احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
وہ شریر آدمی جھوٹا ہے۔ ۵ … رؤیت اور آسمانی وقدرتی نشان مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! مرزا قادیانی نے ۳۱؍مئی کے الحکم میں رؤیت (دیدار خدا) پر بحث کی ہے لیکن اس عنوان کو چھوڑ کر خدائے تعالیٰ کے نشانوں پر جاکودے ہیں۔ دعوے کچھ ہے دلیل کچھ ہے۔ یعنی گفتگو میں دعوے تو خدائے تعالیٰ کی رؤیت کا تھا جس کا جلوہ برخلاف تمام انبیاء کے مرزا قادیانی اپنے سادہ لوح مریدوں کو دکھانے میں فرو ہیں۔ اور بحث کی قدرت الٰہی کے نشانوں پر جن کا کوئی فرد بشر منکر نہیں۔ اوریہ ظاہر ہے کہ رؤیت کا تعلق ذات سے ہے یعنی خدائے تعالیٰ کی ذات محسوس اور مرئی ہو اور آثار کا تعلق صفات سے ہے یعنی کسی شے کی علامت بعینہ وہ شے نہیں ہوتی واضح ہو کہ دنیا میں حسب فحوائے آیت ’’لاتدرکہ الابصار وہو یدرک الابصار‘‘ چشم ظاہر میں سے خدائے تعالیٰ کی رؤیت محال ہے ورنہ غیر محدود کا محدود ظرف (سمت وغیرہ) میں اور مستغنی کا محتاج الیٰ السمت اور لامکانی کا مکانی ہونا لازم آئے گا۔ دیکھو منکروں نے موسیٰ علیہ السلام سے بھی تو کہا تھا کہ ’’لن نؤمن لک حتیٰ نری اﷲ جھرۃ‘‘ یعنی اے موسیٰ ہم تجھ پر اس وقت ایمان لائیں گے جب آمنے سامنے بالمواجہ اور کھلم کھلا خدا کو دیکھ لیں گے مگر موسیٰ جیسے کلیم اﷲ اور اولوالعزم نے خدائے تعالیٰ کو قوم کی استدعاء کے موافق نہ دکھا سکے اور رب ارنی کا جواب لن ترانی ہی ملا۔ بھلا کیا ہے بساط آئینہ ہائے دیدۂ ودل کی وہ جلوہ پار ہوجائے اگر سد سکندر ہو اور ارشاد ہوا ’’ولکن انظر الی الجبل فان استقر مکانہ فسوف ترانی فلما تجلی ربہ للجبل جعلہ دکا وخر موسیٰ صعقا‘‘ {لیکن اے موسیٰ پہاڑ کی طرف دیکھ اگر پہاڑ (تجلی سے) اپنی جگہ ٹھہر گیا تو تو بھی دیکھ سکے گا جب خدا نے پہاڑ پر تجلی کی تو اس کو کردیا ٹکڑے ٹکڑے اور موسیٰ بے ہوش ہوکر گر گئے۔} شوکت ؎ بار حسان کیوں اٹھایا جبکہ دل تھا جلوہ گاہ سل رہی موسیٰ کی چھاتی پر یہ کوہ طور کی اگر کوئی اعتراض کرے کہ جب موسیٰ کو معلوم تھا کہ چشم ظاہر میں سے خدائے تعالیٰ کی رؤیت نہیں ہوسکتی تو انہوں نے کیوں عبث استدعاء کی اور فعل عبث کے ارتکاب سے انبیاء بری اور