احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
۸ … مرزا قادیانی کے دعوئوں کا اعلان مولانا عبدالکریم منٹگمری! مرزا قادیانی بخیال خود ملہم ہیں۔ منجملہ دوسرے الہاموں کے اس وقت قابل غور مفصلہ ذیل الہام ہے۔ ’’وما کان اﷲ لیعذبہم وانت فیہم انہ اوی القریۃ… الخ (رسالہ دافع البلاء ص۶، خزائن ج۱۸ ص۲۲۶)‘‘ مرزا قادیانی اس الہام کی تفسیر یوں فرماتے ہیں۔ اس تمام وحی سے تین باتیں ثابت ہوئی ہیں۔ اوّل… یہ کہ طاعون اس لئے دنیا میں آئی کہ خدا کے مسیح موعود (یعنی مرزا قادیانی) سے نہ صرف انکار کیا گیا بلکہ اس کو دکھا دیا گیا…الخ (رسالہ دافع البلاء ص۸ ، خزائن ج۱۸ ص۲۲۹)۔ دوسری بات جو اس وحی سے ثابت ہوئی۔ وہ یہ ہے کہ طاعون اس حالت میں فرو ہوگی کہ جب لوگ خدا کے فرستادہ کو قبول کرلیں گے۔ (یعنی مرزا قادیانی کو اور کم سے کم یہ کہ شرارت اورایذا اور بدزبانی سے باز آئیں… الخ (رسالہ دافع البلاء ص ۹، خزائن ج۱۸ ص۲۲۹) طاعون کا سبب اگر صرف آپ کی مسیحیت کا انکار ہے اور فرو ہونا طاعون کا آپ کے دعوے مسیحیت پر موقوف ہے تو بہتر ہے کہ گورنمنٹ کو اطلاع دیں کہ ٹیکہ وغیرہ جو انسداد طاعون کے لئے ہے اس پر روپیہ ضائع نہ کرے۔ تیسری بات! جو اس سے ثابت ہوئی وہ یہ ہے کہ خداوند تعالیٰ بہرحال جب تک کہ طاعون دنیا میں رہے گو ستر برس تک دنیا میں رہے۔ قادیان کو اس کی خوفناک تباہی سے محفوظ رکھے گا۔ کیونکہ یہ اس کے رسول کا تخت گاہ ہے…الخ۔ (رسالہ دافع البلاء ص۱۰، خزائن ج۱۸ ص۲۳۰) یہ مرزا قادیانی کا ایسا صاف دعویٰ ہے جس کی ذرہ بھی تاویل نہیں ہوسکتی۔ حالانکہ قادیان طاعون سے ایسا تباہ ہوا جو بمقابلہ گردونواح کے بہت بڑھ کر ہے ہم ایک فہرست خاص باشندگان قادیان کی طرف سے ذیل میں درج کرتے اور جو انہوں نے طاعون کی حالت میںہمارے پاس ارسال کی تھی مگر وہ صاحب یہی تحریر کرتے ہیں کہ ان کی تعداد اموات اس لئے کم ہے کہ شروع ہی میں سب مرزائی بھاگ گئے تھے۔ چنانچہ مرزا قادیانی کا سکول ویران ہے۔ ممکن ہے کہ اس کے بعد بھی اموات ہوئی ہوں وہ فہرست یہ ہے۔ ہندو ۱۰۰، مسلمان ۱۵، مرزائی۵، چوہڑے ۲۵، ابھی تو دو سال کامل بھی نہیں گزرے کہ قادیان جس کو حضور دارالامان سے مشہور کرتے تھے۔ طاعون سے تباہ ہوگیا۔ کیا اب آپ کے الہامات سچے مانے جائیں؟ کیا آپ کو مسیح موعود مانا جائے؟ کیا قادیان اب دارالامان ہے؟ کیا آپ سچے شفیع ہیں؟ کیا آپ بروزی طورپر رسول ہیں؟ ہر گز نہیں۔ باوجود مشاہدہ کوئی مرزائی ان کے دعاوی کا معتقد ہو تو ایسے اعتقاد پر افسوس