احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
۲ … آسمانی باپ نے لے پالک سے کیسا سلوک کیا مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! بظاہر تو کھوسٹ باپ لے پالک سے یہی کہتا رہا کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے دشمنوں کو یوں اور دوں کر ڈالوں گا۔ کسی کی کیا طاقت ہے کہ بری نظروں سے تجھے دیکھ سکے۔ میں نے تیرے دشمنوں ہی کے لئے طاعون بھیجا ہے۔ اور وہ سب کو یکے بعد دیگرے چٹ کررہا ہے اور کرے گا لیکن درپردہ جڑھ کھودتا رہا۔ اور آخر کار یہودی بن کر لے پالک کو سزا دلوائے بغیر نہ چھوڑا۔ بھلا ایسے منافق جانی دشمن باپ کو کیا کوئی چولہے میں ڈالے یا دوزخ میں جھونکے۔ منجملہ دوسری علامتوں کے یہ بھی خروج دجال کی علامت اور نحوست ہے کہ باپ بیٹے کا دشمن بن جائے اور خون سفید ہوجائے۔ ڈھارس تو یہ کہ جہاں تیرا پسینہ گرے گا میں اپنا خون گرادوں گا اور خوارق یہ کہ تعزیرات ہند کی سولی پر لٹکا دیا۔ مجدد السنہ مشرقیہ کو معصوم اور شیر خوار لے پالک کے ساتھ ہمدردی اور منافق آسمانی باپ کے ساتھ لاگ ڈانٹ ہے۔ بھلا یہ کیا انسانیت ہے کہ لے پالک کی مصیبت پر ساری دنیا خوش ہورہی ہے۔ مجدد کو تو اس وقت خوشی ہوتی جب لے پالک اپنے باپ سے عاق ہوکر اس کو چھوڑ بیٹھتا اور تبنیت اور مسیحیت ومہدویت ونبوت کا تمغہ اتار کر آسمانی باپ کے منہ پر مارتا اور خدائے وحدہ لاشریک کا سچا بندہ بن جاتا ورنہ ہم کہے دیتے ہیں کہ یہی آسمانی باپ اور یہی ابوت اور نبوت ہے تو لے پالک کی خیر نہیں۔ ایک نہ ایک روز پھانسی دھری ہے۔ اہالی موالی جدے خوش رہے ہیں کہ وہ سات سو روپیہ کی کیا اصل ہے اگر دھار مار دی جائے تو روپیوں بلکہ اشرفیوں کے توڑے بہنے لگیں۔ دشمنوں کو خوش ہونے کا موقع تو جب تھا کہ خدانخواستہ دور از حال ہمارا نبی اور بروزی قید ہوجاتا۔ لیکن اگر قید ہوجاتا تو شاید یہ کہتے کہ پھانسی تھوڑی ہی لگی ہے۔ اس سے تو بچ گئے۔ جی بجا ہے ناک کٹی مبارک۔ سر منڈا سلامت۔ بے شک جب تک صلیب کی معراج نہ ملے مسیح سے پوری مماثلت ہو نہیں سکتی۔ خیر عدالت نے معصوم اور بے گناہ لے پالک کو سزا تو دی ہے مگر اسی کا صبر بھی ایسا پڑے جیسے آسمان سے بجلی۔ کم از کم اپنے ایڈیکانگ طاعون کو ذرا بھی انگلی دکھائی جائے تو چھٹی تک کا کھایا پیا لبوں پر آجائے۔ آج کے تھوپے آج نہیں جلتے۔ دیکھو سابق مجسٹریٹ گورداسپور سے کئی منزل دور پھینکا گیا۔ مجسٹریٹ حال بھی لے پالک کا جانی دشمن تھا۔ جیل خانے میں جھونکے بغیر نہ رہتا۔ یوں کہو اس کے دل پر ویسا ہی خوف طاری ہوگیا۔ جیسا آتھم کے دل پر ہوگیا تھا۔ جس کا جی چاہے کانشنس میں آپریشن کرکے دیکھ لے آتھم کے معاملے میں تو مرزاقادیانی نے دس ہزار روپیہ کی بازی